تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی(فائل فوٹو)
تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی(فائل فوٹو)

ایف بی آر- پولیس کو اعظم سواتی کے اثاثوں کی تحقیقات کا حکم

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے آئی جی تبادلہ کیس کی سماعت کے دوران ریماکس دیئے ہیں کہ اعظم سواتی میرے جانے کے دن گن رہے ہیں، عدالت نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت اہلیت دیکھنا ہے، عدالت 184/3 میں کئی ارکان پارلیمنٹ کو نااہل کر چکی ہے۔

سپریم کورٹ نے اعظم سواتی کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے ایف بی آر اور پولیس کو حکم دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے سے متعلق کیس کی سماعت کی، اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے بتایا کہ گزشتہ سماعت پرعدالت نے پوچھا تھا کہ کیا ایکشن لیا گیا ہے،اعظم سواتی وزارت سے استعفی دے چکے ہیں لیکن ان کا استعفی منظور نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ استعفی وزارت سے دیا گیا ہے، اعظم سواتی میرے جانے کے دن گن رہے ہیں، عدالت نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت اہلیت دیکھنا ہے، عدالت 184/3 میں کئی ارکان پارلیمنٹ کو نااہل کر چکی ہے۔

اعظم سواتی کا استعفیٰ تاحال منظور نہ ہونے کا انکشاف

عدالت کے استفسار پر آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی اور چار دیگر کے خلاف مقدمات درج ہیں، ملزمان کی ضمانت منسوخی کیلئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سارا کیا دھرا اعظم سواتی کا ہے، آئی جی کو ٹیلی فون اعظم سواتی نے کئے تھے، جے آئی ٹی رپورٹ بھی اعظم سواتی کے خلاف ہے، آپ کو کس نے آئی جی بنایا ہے، آپ اعظم سواتی کو بچانے کے لئے بیٹھے ہیں۔ شرم تو ہمیں پولیس سے آرہی ہے،آئی جی اسلام آباد کے حوالے سے عدالت کا تاثر اچھا نہیں، بات نہ سننے والا ٹرانسفر ہو جائے گا اور بات ماننے والا تعینات ہوجائے گا۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے سپریم کورٹ کو بتایا جے آئی ٹی کے مطابق اعظم سواتی کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں، انہوں نے 101 کنال اراضی بھی ظاہر نہیں کی،اثاثوں میں اضافے کا بھی ٹھوس جواب نہیں دیا گیا، اختیارات کے ناجائز استعمال پر فوجداری کارروائی ہو سکتی ہے اور نیب قانون بھی لاگو ہوتا ہے۔ جے آئی ٹی کے مطابق آئی جی کا تبادلہ اعظم سواتی نے نہیں کروایا لیکن واقعاتی شہادت سے لگتا ہے آئی جی کا تبادلہ اعظم سواتی کی شکایت پر ہوا۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر مِس ڈیکلریشن کا کیس ہو تو 62 ون ایف کے تحت نا اہل کرنےکی کارروائی ہوسکتی ہے۔
جس پر عدالت عظمیٰ نے عدالتی معاون کی تجویز پر اعظم سواتی کے اثاثوں سے متعلق معاملہ ایف بی آر کو بھجواتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات کرے گا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مِس ڈیکلریشن ثابت ہوا تو سپریم کورٹ اس کو بھی دیکھے گا کہ اعظم سواتی اہل ہیں یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم پارلیمنٹ کی بے انتہا عزت کرتے ہیں، عدالت کا پہلے دن سے یہی موقف ہے ، سپریم کورٹ کے پاس شہادتیں اکٹھی کرنے سمیت ٹرائل کے مکمل اختیارات ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اعظم سواتی کے معاملے کی رپورٹ آنے تک سماعت ملتوی کر دی گئی۔