شہباز شریف کے خلاف جو کیسز ہیں انہیں روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے۔فائل فوٹو
شہباز شریف کے خلاف جو کیسز ہیں انہیں روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے۔فائل فوٹو

’ڈیجیٹل میڈیا‘ کو ترجیح دینے کی حکومتی پالیسی کیوں؟

وفاقی حکومت نے سرکاری اشتہارات اخبارات اور ٹی وی چینلز کو دینے کے بجائے انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائیٹ اور سوشل میڈیا سروسز کو دینے کی نئی پالیسی کی تصدیق کردی ہے۔

اس پالیسی کا بظاہر مقصد ٹی وی اور اخبارات کو ختم کرکے ویب سائیٹس کو ان کا متبادل بنانا ہے۔ تاہم حکومت اس سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے اور یہ پالیسی کتنی کامیاب ہوگی؟ یہ سوالات اہم ہیں۔

فواد چوہدری نے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی بات بھی کی ہے۔

وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے بدھ کو اسلام آباد میں ڈیجٹل میڈیا پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے ایک تہائی سرکاری اشتہارات ’ڈیجیٹل میڈیا‘ کے لیے مختص کردیئے ہیں۔

سرکاری اشتہارات سے آمدن کی نئی تقسیم

وفاقی حکومت کی جانب سے اس سے پہلے ٹی وی چینلز اور اخبارات کو سرکاری اشتہارات دیئے جاتے تھے۔ تاہم تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد ان میں اتنی بڑی کمی کی گئی کہ سرکاری اشتہارات اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔  ٹی وی چینلز کے لیے سرکاری اشتہارات کے نرخوں میں بھی دو تہائی کمی کی گئی ہے۔

اگرچہ فواد چوہدری نے سرکاری اشتہارات انٹرنیٹ پردینے کی پالیسی کا باضابطہ اعلان بدھ کو کیا تاہم حکومت پہلے ہی انٹرنیٹ پر سرکاری اشتہارات دینے کا سلسلہ شروع کرچکی ہے۔

انٹرنیٹ ریونیوز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ سے دو ہفتے سے حکومت پاکستان کے اشتہارات مختلف ویب سائیٹس پر نظر آرہے ہیں۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ 7 ارب روپے کے اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ روایتی ذرائع ابلاغ یعنی ٹی وی اور اخبارات کے لیے اشتہارات میں کمی آرہی ہے تاہم اس کا مطلب میڈیا کا بحران نہیں بلکہ انٹرنیٹ اب ٹی وی اور اخبارات کے متبادل کے طور پر سامنے آرہا ہے۔

فواد چوہدری کا کہناتھا، ’’آپ کا موبائل فون ہی آپ کا ٹی وی ہے اور پرنٹ میڈیا ہے۔‘‘

ٹی وی چینلز اور اخبارات کے لیے سرکاری اشتہارات ہی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ رہے ہیں۔اگرچہ یہ سب سے بڑا ذریعہ نہیں تھے۔ سب سے زیادہ آمدن نجی اشتہارات سے آتی تھی۔

ٹی وی چینلز کے ریونیوز سے واقف ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے نیوز چینل کا پرائم ٹائم کا اشتہارت نجی کمپنیاں ڈیڑھ لاکھ روپے میں دیتی تھیں جبکہ اسی اشتہار کے سرکاری نرخ تین لاکھ کے قریب تھے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے اب اس اشتہارات کا سرکاری نرخ 90 ہزار روپے کر دیا ہے یعنی اشتہار دینے والی نجی کمپنیوں سے بھی کم۔

تاہم سرکاری اشتہارت کے نرخ کم کرنےا ور انہیں روایتی میڈیا کے لیے بند کرنے سے بھی زیادہ خطرناک معاملہ نجی اداروں کے  نیوز میڈیا کے لیے اشتہارت میں کمی ہے۔

کراچی میں تعمیراتی صنعت ٹھپ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے بلڈرز کے اشتہارات اخبارات کو نہیں مل رہے جو شہر کے اخبارت کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ تھے۔

نیوز ٹی وی چینلز کے اشتہارات ان چینلز سے انٹرٹیمنٹ کے چینلز کو منتقل ہوچکے ہیں۔

یاد رہے کہ وفاقی وزیراطلاعات نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ابتدائی دنوں میں خبروں سے زیادہ انٹرٹیمنٹ کو اہمیت دینے کی بات کی تھی۔

سوشل میڈیا پر کنٹرول

وفاقی وزیر اطلاعات نے بدھ کو یہ اعلان بھی کیا کہ ویب ٹی وی، سوشل میڈیا اور دیگر انٹرنیٹ میڈیا کو حکومت ریگولرائز کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کام پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) کرے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ماضی میں سرکاری اشتہارات کا حربہ استعمال کیا گیا اور اب بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے۔

گستاخانہ مواد کے معاملے پر یوٹیوب ایک طویل عرصہ پاکستان میں بلاک رہی جس کے بعد یوٹیوب نے پاکستان کے لے الگ ورژن جاری کرتے ہوئے حکومت پاکستان کےمطالبات تسلیم کرلیے تھے۔ اسی طرح فیس  بک اور ٹوئٹر بھی حکومت کے ساتھ غیرمعمولی تعاون کرتے ہیں تاکہ انہیں پاکستان میں بند نہ کیا جائے۔

فواد چوہدری نے فیس بک کو پاکستان میں دفتر کھولنے کی دعوت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفتر کھولنے کی بدولت فیس بک کو پاکستان میں بزنس مل سکے گا۔ یاد رہے کہ فیس بک پر پاکستان سے نجی اشتہارات پہلے ہی چل رہے ہیں۔

کیا ڈیجٹل میڈیا متبادل بن سکتا ہے؟ حکومت کو کیا فائدہ؟

انٹرنیٹ کے سبب روایتی ذرائع ابلاغ کی اہمیت کم ہونے یا ان کے ختم ہونے پر بحث بہت پرانی ہے اور امریکہ میں لگ بھگ دو عشروں سے جاری ہے۔

امریکہ میں اخبارات کی اشاعت کم ضرور ہوئی لیکن پرنٹ میڈیا کی افادیت ختم نہ ہوسکی۔ آج بھی اہم انکشافات نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات ہی کرتے ہیں۔

تحقیقاتی خبروں کے لیے اخبار سے زیادہ موزوں میڈیم کوئی نہیں۔ جتنی تفصیلات ایک تحقیقاتی رپورٹ میں پیش کی جاتی ہیں انہی معلومات کو اگر ویڈیو کی صورت میں پیش کیا جائے تو پوری ایک دستاویزی فلم بنانے کی ضرورت پڑے گی جس پر بہت زیادہ خرچ آئے گا۔

یہ درست ہے کہ ویب سائیٹس اخبارات کی طرح تحریری صورت میں بہت زیادہ مواد پیش کرسکتی ہیں، حتیٰ کے اخبارات سے بھی زیادہ لیکن یہاں  بھی مسئلہ خبر کی تیاری پر آنے والے اخراجات کا ہے۔ جس کے لے اکانومی آف نیوز کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔

انٹرنیٹ پر پاکستان کی مقبول ترین ویب سائیٹس کی آمدن کا جائزہ لیا جائے تو یہ آمدن ماہانہ ایک کروڑ سے بہت کم ہے۔

عام طور پر ایک متوسط درجے کے اخبارات کی ماہانہ تنخواہیں ایک کروڑ کے لگ بھگ ہوتی ہیں۔ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔

یعنی مقبول ترین ویب سائیٹس بھی اتنی آمدن حاصل نہیں کر رہیں جتنے اخبارات  کے اخراجات ہیں۔

آمدن نہ ہونے کے سبب یہ ویب سائیٹس خبروں کی تیاری پر اخراجات کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں گی۔ بالخصوص تحقیقاتی رپورٹس پر۔ یاد رہے کہ تحقیقاتی صحافت سے ہی حکومتیں اور دیگر ادارے خائف رہتے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انٹرنیٹ پر خبروں سے زیادہ آمدن انٹرٹیمنٹ پر مبنی مواد سے ہوتی ہے۔ لہٰذا ڈیجٹل میڈیا اپنی آمدن بڑھانے کےلیے توجہ بھی کھیل و تفریح پر دے گا۔

خبروں کی تیاری پس منظر میں چلی جائے گی۔ یا پھر سنسی خیزی پھیلانے والی خبروں کی تیاری کو ترجیح دی جائے گی جو صحافت کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گی۔

لہٰذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت حال میں عام آدمی حائقق سے محروم نہ جائے گا؟ کیا یہی وہ مقصد ہے جو حکومت حاصل کرنا چاہتی ہے؟

ٹی وی یا اخبارات کے بجائے ڈیجٹل میڈیا کو بند کرنا بھی زیادہ آسان ہے۔ ٹی وی چینلز کو کیبل پر روکا جاسکتا ہے لیکن وہ سٹیلائیٹ پر موجود رہتے ہیں اور ڈش انٹینیا رکھنے والے افراد انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ڈش پر سٹیلائیٹ چینلز کو روکنے کا واحد طریقہ ان کی فریکونسی کو ہدف بنانا ہے جو اتنا آسان نہیں۔

اسی طرح اخبارات کی تقسیم روکنے کےلیے ماضی میں آمرانہ حکومتوں کی کوششیں ناکامی کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ حکومت مخالف اخبارات چھوری چھپے شائع ہو کر تقسیم بھی ہوجاتے تھے۔

اس کے مقابلے میں کسی بھی ویب سائیٹ کو مکمل طور پر بلاک کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔

سرکاری میڈیا

وفاقی وزیراطلاعات نے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کو بھی پاکستان کی ڈیجٹل سروس میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا۔

اے پی پی پہلے ہی ویڈیو سروس جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ یہ اخبارات اور ٹی وی چینلز کو خبریں اردو اور انگریزی میں فراہم کرتی ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حکومت 85 کروڑ اے پی پی پر خرچ کرتی ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے ملازمین کو ای میل بھیجنا بھی نہیں آتا۔

ذرائع کے مطابق حکومت کی کوشش ہے کہ سرکاری میڈیا بھی نجی اداروں کی طرح آمدن کے معاملے میں خود مختاری حاصل کرے۔ البتہ حکومتی کنٹرول میں ہی کام کرے۔

ذرائع کے مطابق یہ دونوں بالکل متضاد باتیں ہیں۔

دنیا بھر میں سرکاری ذرائع ابلاغ حکومتی فنڈنگ سے چلتے ہیں۔ حتیٰ کہ بی بی سی جیسا ادارہ بھی حکومت سے فنڈز لیتا ہے۔ یہ فنڈز ٹی وی لائسنس فیس کی مد میں عوام سے جمع ہونے والی رقم کے علاوہ ہیں۔

کیا سرکاری فنڈنگ کے بغیر خبریں تیار کی جاسکتی ہیں اور کیا انہیں ہرشخص تک پہنچایا جاسکتاہے؟ یہ ایک ایسا سوال پر ہے جس پر ایک علیحدہ مضمون درکار ہوگا۔