فروری 2012 میں امریکہ سے پاکستان کو ملنے والے آخری 3 ایف سولہ طیارے شہباز ایئربیس پر کھڑے ہیں۔ اس کے بعد براہ راست امریکہ نے کوئی ایف 16 پاکستان کو نہیں دیا۔
فروری 2012 میں امریکہ سے پاکستان کو ملنے والے آخری 3 ایف سولہ طیارے شہباز ایئربیس پر کھڑے ہیں۔ اس کے بعد براہ راست امریکہ نے کوئی ایف 16 پاکستان کو نہیں دیا۔

کیا پاکستان نے ایف 16 بھارت کیخلاف استعمال نہ کرنے کا معاہدہ کیا؟

امریکہ نے اس بات کی تحقیقات شروع کر دی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ٹھکانوں پر حملے اور پھر پاکستان میں گھسنے والے بھارتی طیاروں کو مار گرانے کے لیے پاکستان نے امریکی ساختہ ایف 16 طیارے استعمال کیے تھے یا نہیں۔

یہ بات پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے اتوار کو کہی۔

اس سے پہلے بھارتی ذرائع ابلاغ پچھلے چار دن سے کہہ رہے تھے کہ امریکہ نے پاکستان کو ایف 16طیارے صرف دہشت گردی کے خلاف استعمال کرنے کے لیے دیئے تھے اور پاکستان نے یہ طیارے بھارت کے خلاف استعمال کیے ہیں جو ان کی خریداری کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت نے ایک پاکستانی ایف سولہ مار گرانے کا دعویٰ بھی کیا۔

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بدھ کو ہی اپنی پریس کانفرنس میں ایف سولہ کی تباہی کے بھارتی دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپریشن میں ایف سولہ طیارہ استعمال ہی نہیں ہوا۔

لیکن جمعرات کو بھارتی مسلح افواج کی پریس کانفرنس کے دوران ایک امریکی ساختہ میزائل کا ٹکڑا صحافیوں کو دکھاتے ہوئے بھارتی فوجی افسران نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ AIM-120C-5 میزائل صرف ایف سولہ سے ہی داغا جا سکتا ہے۔ بھارت نے اس کے بعد امریکی تحقیقات کا واویلا شروع کردیا۔

اتوار کو پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے پہلی مرتبہ اس معاملے پر بات چیت کی جو برطانوی خبر رساں ادارے کے ذریعے سامنے آئی ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے مقابلے میں ایف  16استعمال ہونے سے متعلق اطلاعات سے آگاہ ہیں اور اس حوالے سے مزید تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔

ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ دفاعی اشیا کے غلط استعمال کے الزامات کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔

کیا پاکستانی ایف 16 بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتے؟

برطانوی خبر رساں ادارے نے لکھا کہ یہ بات واضح نہیں ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاہدوں میں پاکستان کو کیا کرنے سے روکا گیا ہے اور امریکی سفارتخانے نے کہا ہے کہ امریکی حکومت تحقیقات کے دوران تصدیق یا تبصرہ نہیں کرے گی۔

امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل کون فالکنر نے بھارتی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی معاہدوں میں رازداری کی شرط شامل ہوتی ہے لہٰذا وہ معاہدوں کی تفصیلات نہیں بتا سکتے۔

فالکنر نے بھی یہ واضح نہیں کیا کہ طیارے بھارت کے خلاف استعمال کرنے کی شرط پاک امریکہ معاہدے میں ہے یا نہیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ گذشتہ کئی دن سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ دیتے وقت شرط رکھی تھی کہ یہ پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے اور اب پاکستان نے اس شق کی خلاف ورزی کی ہے۔

دوسری جانب پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جمعہ کے روز آسٹریلیا کے ایس بی ایس پنجابی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ایف سولہ طیارے رقم دے کر خریدے ہیں کوئی عطیے میں نہیں لیے لہذا پاکستان جہاں چاہے گا انہیں استعمال کرے گا۔

امریکی سفارت خانے کے تازہ بیان کے بعد بظاہر بھارتی دعوے کا وزن کچھ بڑھ گیا ہے۔ امریکی سفارتخانے اور محکمہ دفاع کے ترجمانوں کا یہ مؤقف درست ہے کہ دفاعی معاہدوں میں رازداری کی شرط شامل ہوتی ہے لہٰذا اس حوالے سے درست معلومات تبھی معلوم ہوسکتی ہیں جب دونوں ممالک یا ان میں سے کوئی ایک اس پر وضاحت کرے۔

دہلی میں پریس کانفرنس کے موقع پر بھارتی فوجی حکام امریکی میزائل کا ٹکڑا ہاتھ میں اٹھا کر صحافیوں کو دکھا رہے ہیں جو بقول ان کے پاکستانی ایف سولہ سے فائر کیا گیا۔
دہلی میں پریس کانفرنس کے موقع پر بھارتی فوجی حکام امریکی میزائل کا ٹکڑا ہاتھ میں اٹھا کر صحافیوں کو دکھا رہے ہیں جو بقول ان کے پاکستانی ایف سولہ سے فائر کیا گیا۔

تاہم بھارتی دعوے کی حقیقت کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں۔

پاکستان 1982 سے امریکہ سے ایف سولہ طیارے خرید رہا ہے۔ پریسلر ترمیم کے بعد امریکہ نے 1990 کے عشرے میں طیاروں کی فراہمی روک لی تھی۔ تاہم نائن الیون کے بعد پاکستان کو ایف سولہ ملنے کا ایک بار پھر آغاز ہوا۔ آخری بار امریکہ سے 2012 میں ایف سولہ طیارے پاکستان کے حوالے کیے گئے۔ جینز ڈیفنس انڈسٹریل ویکلی کے مطابق  2014 میں پاکستان نے اردن سے 13 استعمال شدہ ایف 16 طیارے حاصل کیے جو 19 ویں اسکواڈرن کا حصہ بنے۔

2016 میں پاکستان نے امریکہ سے مزید 8 ایف سولہ طیارے خریدنے کی کوشش کی۔ بھارت یہ معاہدے رکوانے کے لیے میدان میں آگیا۔ سابق امریکی سینیٹر لیری پریسلر نے اپنی کتاب Neighbours in Arms میں لکھا کہ بھارت نے پاکستان کو طیاروں سے محروم رکھنے کےلیے لابنگ پر 7 لاکھ ڈالر خرچ کیے۔ پاکستان کو ان طیاروں کی فراہمی روکنے کے لیے بھارت کے حامی امریکی سینیٹرز نے سینیٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ طیارے پاکستان دہشت گردی کے بجائے بھارت کے خلاف استعمال کرے گا۔

امریکی سینیٹ میں اختیار کیے گئے اس مؤقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم ازکم 2016 تک پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایسی کوئی شرط نہیں تھی جس کے تحت پاکستان ایف 16 طیارے بھارت کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا تھا۔

بھارت کے حامی ارکان کی مخالفت کے باوجود امریکی کانگریس نے پاکستان کو ایف 16 فروخت کرنے کی منظوری دے دی تاہم اس پر سبسڈی دینے سے انکار کردیا۔ پاکستان کو پہلے طیاروں کی خریداری کیلئے 27 کروڑ ڈالر دینے تھے، اب پاکستانی حکومت کو 70 کروڑ ڈالر دینے کے لیے کہا گیا۔ اس نئے امریکی مؤقف کے نتیجے میں ایف سولہ  طیارے پاکستان کی قوت خرید سے باہر ہوگئے۔

اس وقت تک پاکستان جے ایف تھنڈر طیارے پر کام کافی آگے بڑھا چکا تھا جب کہ روس نے بھی پاکستان کو طیارے بیچنے کی پیشکش کر دی تھی۔ 15 جون 2016 کو اس وقت کے سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) عالم خٹک نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ امریکہ سے ایف سولہ خریدنے کا باب بند ہوگیا ہے، پاکستان اب متبادل دیکھے گا۔

اسی دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ اردن نے مزید 16 عدد استعمال شدہ ایف 16 طیارے پاکستان کو دینے کی پیشکش کی ہے۔ جب پاکستان نے امریکہ سے 8 طیاروں کے حصول کی بات چیت شروع کر رکھی تھی تو اس وقت پاکستان کے پاس موجود ایف سولہ طیاروں کی تعداد 74 تھی۔ اب پاکستانی ایف سولہ طیاروں کی تعداد 85 بتائی جاتی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ پاکستان نے اردن کے پیش کردہ 16 عدد طیارے یا ان میں سے کچھ خریدے یا نہیں۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ فروری 2012 میں امریکہ کی طرف سے آخری 3 ایف سولہ طیاروں کی جو ڈیلیوری شہباز ایئربیس پر دی گئی تھی اس کے بعد براہ راست امریکہ سے پاکستان نے کوئی ایف سولہ طیارہ نہیں خریدا۔

لہٰذا 2016 کی بھارتی چیخ و پکار اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان نے امریکہ سے ایف سولہ طیارے خریدیتے وقت انہیں بھارت کے خلاف استعمال نہ کرنے کا واضح وعدہ نہیں کیا۔

البتہ  بیشترامریکی دفاعی معاہدوں میں یہ شق شامل ہوتی ہے کہ امریکہ سے خریدا گیا ہتھیار صرف دفاع کے لیے استعمال کیا جائے گا اور جارحیت کے لیے استعمال نہیں ہوگا۔ بھارت اگر اپنے طیارے مار گرانے کو جارحیت قرار دینے میں کامیاب ہوتا ہے تو پاکستان کیلئے پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ بہت مشکل ہے۔ تباہ شدہ ایک طیارے کا ملبہ پاکستانی حدود میں گرا اور یہ بھارتی جارحیت کا ٹھوس ثبوت ہے۔

صرف ایف 16 طیاروں نہیں میزائل پر بھی تنازع

بھارتی مسلح افواج کے نمائندوں نے اپنی بریفنگ میں جس AIM-120C-5  ایم ریم(AMRAAM) میزائل کا ٹکڑا دکھایا وہ 105 کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔ بھارتی دعویٰ تھا کہ یہ میزائل صرف ایف 16 سے داغا جا سکتا ہے لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نے ایف 16 حملے میں استعمال کیے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بھارت نے ایک ایف سولہ مار گرایا۔

تاہم بھارت کا یہ مؤقف درست نہیں کہ مذکورہ میزائل صرف ایف سولہ سے ہی داغا جا سکتا ہے۔ پاکستانی جے ایف 17 تھنڈر کی متعلقہ دستاویزات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ جے ایف تھنڈر مختلف اقسام کے ایم ریم میزائل فائر کرسکتا ہے جن میں AIM-120C-5 بھی شامل ہے۔

طیارے کی تباہی پر بھارت نے 1965 جیسا پروپیگنڈہ شروع کردیا

بھارتی دعویٰ جھوٹا۔ایف 16میزائل کا ٹکڑا تائیوان کی ملکیت نکلا

پائلٹ رہائی کے بعد پاکستان کیخلاف آئندہ بھارتی اقدام

اب بھارت کی جانب سے طیارے کے ساتھ ساتھ میزائل کے ناجائز استعمال کا شور بھی اٹھ رہا ہے۔ اگرچہ بعض رپورٹوں میں یہ بات سامنےآئی ہے کہ بھارت نے جو میزائل کا ٹکڑا دکھایا اس پر درج نمبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تائیوان کو فروخت کیا گیا تھا، لیکن بھارت کے دفاعی تجزیہ نگار مصر ہیں کہ یہ 2006 میں پاکستان کو فروخت ہوا تھا۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے امریکہ سے میزائل حاصل کیے تھے۔ 2010 میں امریکہ نے پاکستانی ایف سولہ اپ گریڈ بھی کیے اور ان میں نئے آلات لگا کر اس قابل بنایا گیا کہ وہ رات کو بھی حملے کر سکیں۔

تاہم یہ تمام تر تعاون 2016 سے پہلے سے جاری تھا اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ کم ازکم 2016 تک پاکستان نے بھارت کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا۔

2016 کے بعد پاکستان امریکہ تعاون ویسے ہی زوال پذیر ہوگیا۔ جنوری 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے امریکہ میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے ایک عشایئے میں امید ظاہر کی تھی کہ پاکستان اب امریکہ سے ایف سولہ طیارے خریدنے کی کوشش کرے گا اور کولیشن سپورٹ فنڈ  پر بھی امریکہ کو نظرثانی کے لیے کہا جائے گا۔

تاہم ٹرمپ کے دور میں پاک امریکہ تعلقات مزید پستی میں جا گرے اور امریکہ نے وہ رقم بھی روک دی جو کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت اس نے لازماً ادا کرنی تھی۔