عالمی برادری خطے کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کیلیے ذمے داریاں پوری کرے۔فائل فوٹو
عالمی برادری خطے کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کیلیے ذمے داریاں پوری کرے۔فائل فوٹو

ولی عہد سے ’اختلافات‘ کے بعد سعودی شاہ کی یاداشت بگڑنے کا دعویٰ

سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے بیٹے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرنے کی خبروں کے بعد غیرسعودی عرب میڈیا میں بادشاہ کی صحت بگڑنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، حتیٰ کہ شاہ سلمان کی دماغی صحت کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ بادشاہ کوئی بات پانچ منٹ سے زیادہ یاد نہیں رکھ پاتے۔

عرب سوشل میڈیا میں ایک دعویٰ یہ بھی کیا گیا ہےکہ ولی عہد محمد بن سلمان کو اپنے ایک بھائی 23 سالہ بنر بن سلمان کی طرف سے خطرہ لاحق ہے۔

برطانیہ کے اخبار گارجین نے منگل کو شائع کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ شاہ سلمان اور ولی عہد کے درمیان اختلافات اتنے شدید ہوگئے ہیں کہ شاہ سلمان نے دورہ مصر کے دوران ہنگامی طور پر اپنے محافظوں کی ٹیم تبدیل کرائی جب کہ واپسی پر شہزادہ محمد بن سلمان ان کا استقبال کرنے بھی نہیں آئے۔

’شاہ سلمان کو بیٹے سے خدشات‘

گارجین کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ شاہ کی غیرموجودگی میں ولی عہد شہزادے نے دو بڑے فیصلے کیے۔ ان میں سے ایک امریکہ میں سعودی سفیر کے عہدے پر پہلی مرتبہ ایک خاتون شہزادی ریما بنت بند بن سلطان کے تقرر کا تھا۔ دوسرا اہم فیصلہ شہزادہ سلمان کے سگے بھائی شہزاد خالد بن سلمان کو نائب وزیر دفاع بنانے کا تھا۔

برطانوی اخبار کے مطابق ان دونوں فیصلوں کی اطلاعات شاہ سلمان کو مصر میں ٹی وی کے ذریعے ملی، انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ان دونوں تقرریوں کے حکمناموں سمیت شاہ سلمان کی غیرموجودگی میں جاری ہونے والے تمام احکامات پر ولی عہد محمد بن سلمان کے نام کے ساتھ ڈپٹی کنگ یعنی نائب بادشاہ کا عہدہ لکھا گیا۔ جو غیرمعمولی بات ہے۔

شاہ سلمان اور ان کے بیٹے ولی عہد محمد بن سلمان کی ایک پرانی تصویر
شاہ سلمان اور ان کے بیٹے ولی عہد محمد بن سلمان کی ایک پرانی تصویر

عربی میں ان حکم ناموں پر ’’نائب ملك المملكة العربية السعودية‘‘ درج ہے تاہم اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ حکمنامہ شاہ سلمان کے ایما پر جاری کیا گیا۔

گارجین کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان جب مصر کے دورے پر تھے تو مشیروں نے انہیں بتایا کہ ان کے خلاف کوئی اقدام ہوسکتا ہے، اس پر سعودی عرب سے شاہ کے وفادار 30 محافظ بلوائے گئے جب کہ پہلے سے موجود سعودی محافظوں کو فارغ کردیا گیا کیونکہ ان میں ولی عہد سلمان بن محمد کے وفادار شامل ہونے کا خدشہ تھا۔

اخبار کے بقول سعودی شاہ نے مصری حکومت کی جانب سے فراہم کردہ محاظ بھی ہٹا دیئے۔ کیونکہ انہیں السیسی حکومت پر بھروسہ نہیں تھا۔

شاہ سلمان ہفتہ 23 فروری کو مصر کے مقام الشرم الشیخ میں یورپ عرب سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچے تھے جب کہ پیر 25 فروری کو وہ واپس لوٹے۔

واپسی پر صوبہ الجوف کے گورنر عبد الإله بن عبد العزيز نے ان کا استقبال کیا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان استقبال کے لیے نہیں آئے۔

اختلافات کا سبب

برطانوی اخبار کا کہنا تھا کہ سعودی صحافی جمال الخاشقجی کے قتل کے بعد شہزادے اور بادشاہ میں اختلافات بڑھنا شروع ہوئے کیونکہ مشیروں نے شاہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ معاملات اپنے ہاتھ میں لیں۔ اس کے علاوہ یمن جنگ اور سوڈان میں ہونے والے مظاہروں پر شہزاد محمد بن سلمان کی جانب سے وہاں کی حکومت کی حمایت پر بھی اختلافات ہیں۔

اختلافات کا ایک اور سبب مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ ہے۔  امریکہ اسے اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرانا چاہتا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر سعودی ولی عہد کے قریبی دوست ہیں۔ تاہم اب تک سعودی حکومت مکمل طور پر فلسطینی مؤقف کی حمایت کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ سعودی تیل کمپنی آرامکو کے شیئر بیچنے کے معاملے پر بادشاہ اور ولی عہد میں اختلافات کی خبریں آچکی ہیں۔

سعودی ترجمان کا مؤقف

گارجین میں منگل کو شائع ہونے والی رپورٹ پر جمعرات تک سرکاری طور پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ البتہ برطانوی اخبار نے رپورٹ شائع کرنے سے پہلے واشنگٹن میں سعودی سفارتخانے سے مؤقف مانگا تھا جو رپورٹ کا حصہ ہے۔ سعودی سفارتخانے نے کہاکہ ’’سعودی عرب کے بادشاہ جب بھی بیرون ملک جاتے ہیں امور مملکت چلانے کے لیے انتظامی اختیارات اپنے نائب ولی عہد شہزادے کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرتے ہیں۔ شاہ سلمان کے حالیہ دورہ مصر کے موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔‘‘

ترجمان نے مزید کہا کہ ولی عہد نے بطور نائب بادشاہ جو احکامات جاری کیے وہ شاہ سلمان کے ایم پر ہی جاری ہوئے۔ اس کے علاوہ کوئی تاثر دینا بے بنیاد ہے۔

گارجین کا کہنا ہے کہ شاہ کے محافظوں میں تبدیلی اور مصری محافظوں کو واپس بھیجنے پر ترجمان نے کوئی بات نہیں کی۔

شاہ سلمان کی صحت پر دعوے

ادھر لبنان سے شائع ہونے والے آن لائن جریدے ’’رای الیوم‘‘ نے لکھا کہ ولی عہد شہزادے کے استقبال کے لیے نہ آنے کی وجہ صرف اور صرف سیکورٹی ہوسکتی ہے، شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے کیے گئے کریک ڈائون میں کئی شہزادوں نے ان کی بیعت نہیں کی اور ان سے خطرہ ہوسکتا ہے۔

رائی الیوم میں شائع ہونے والے اس مضمون میں بار بار زور دیا گیا کہ ولی عہد محمد بن سلمان ہی ملک کے عملی بادشاہ ہیں۔ کیونکہ ان کے والد ہی صحت گر چکی ہے، وہ توجہ مرکوز نہیں کر پاتے، ملکی اور بین الاقوامی امور سے پیچھے ہٹ چکے ہیں، وہ بیرون ملک سے آنے والی شخصیات کے ساتھ صرف رسمی ملاقاتیں کرتے ہیں اور صرف مختصر وقت کےلیے تصویر بنوانے آتے ہیں۔

شاہ سلمان کی صحت سے متعلق ملتا جلتا ایک دعویٰ ایران کے عرب زبانی کے الکوثر ٹی وی نے کیا۔ اس دعوے میں کہا گیا ہے کہ شاہ سلمان اپنی بیماری کے سبب کوئی بھی بات پانچ منٹ کے زیادہ یاد نہیں رکھ پاتے۔ انہیں اپنے بیٹے کے حالیہ فیصلوں کا علم ہی نہیں۔ شاہ کے حوالے سے کوئی بھی رپورٹ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

آتے ہیں ’گمنام‘ سے یہ مضامین خیال میں

ایرانی ٹی وی کی رپورٹ اور شاہ سلمان کی صحت کے حوالے سے دیگر خبروں کا ماخذ بظاہر ایک گمنام سوشل میڈیا کارکن ہے جس نے اپنے لیے مجتھہد کا فرضی نام چنا ہے اور @mujtahidd کے ٹوئٹر ہینڈل سے عربی میں ٹوئیٹس کرتا ہے۔

عرب سوشل میڈیا کارکن کا ٹوئٹر اکائونٹ جو مجتھد کے فرضی نام سے دعوے کرتا ہے
عرب سوشل میڈیا کارکن کا ٹوئٹر اکائونٹ جو مجتھد کے فرضی نام سے دعوے کرتا ہے

اسی مجتھد نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اپنے بھائیوں کی جانب سے خطرہ ہوسکتا ہے۔  دیگر سوشل میڈیا کارکنوں نے اس حوالے سے شہزادہ بندر بن سلمان کا نام لیا۔ مجتھد نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہاکہ شہزادہ بند بن سلمان کی عمر 23 برس ہے۔ ولی عہد نے جب سعودی شہزادوں کو قید کیا تو شہزاد بندر بن سلمان کو ان کی نگرانی پر مامور کیا گیا تھا تاہم بعد ازاں یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ اس کی ہمدردیاں قیدیوں کے ساتھ ہیں اسے ہٹا دیا گیا۔

مجتھد نے یہ بھی لکھا کہ شاہ سلمان کے حوالے سے برطانوی میڈیا کی رپورٹیں غلط ہیں اور شاید کسی ایک ذریعے پر انحصار کیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے پہلے سعودی تیل کمپنی آرامکو کی فروخت کے حوالے سے جو رپورٹیں آئی تھیں ان میں غلط دعوے کیے گئے تھے۔

انٹرنیٹ پر مجتھد کے دعوئوں کو اہمیت دی جاتی ہے تاہم ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کے سبب ان تمام دعوئوں کو سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈے کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

سعودی عرب کے اپنے اخبارات و جرائد اس معاملے پر مکمل خاموش ہیں۔