عورتوں کے حقوق کے نام پر نیا نعرہ

چھریوں کی دھمکی والے عورت مارچ کا پی ٹی ایم سے کیا تعلق

فریئر ہال میں عورت مارچ کے اسٹیج کا منظر۔
فریئر ہال میں عورت مارچ کے اسٹیج کا منظر۔

پاکستان میں حقوق نسواں کے نام پر گذشتہ برس نعرہ لگا تھا۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ اس برس عالمی یوم خواتین پر کئی نئے نعرے سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک میں یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ ’’یاد رکھو ساری چھریاں کچن میں ہوتی ہیں۔‘‘

دیگر نعروں میں ’’ناچ میری بلبل تجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا‘‘ ایک گالی نما جملہ ’’آج واقعی ماں بہن ایک ہو رہی ہے‘‘ اور ’’مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے‘‘ شامل تھے۔ ایک خاتون نے ’’میں آوارہ میں بدچلن‘‘ کا پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا۔

عورتوں کے حقوق کے نام پر نیا نعرہ

ان نعروں پر اگرچہ حقوق نسواں کی حامی خواتین نے بھی تنقید کی اور کہا کہ خواتین کے اصل مطالبات کے بجائے سطحی باتیں کی جا رہی  ہیں۔ تاہم عورت مارچ کے منتظمین کا مقصد توجہ حاصل کرنا تھا اور اس مقصد میں انہوں نے کامیابی کا اعلان بھی کیا۔ عورت مارچ 2019 کے ٹوئٹر اکائونٹ پر لکھا گیا کہ ہماری ٹرولنگ کا مطلب ہمیں مبارک باد دینا ہے۔

تاہم اس نام نہاد عورت مارچ اور ان نعروں کے اصل مقاصد کا اندازہ ان نعروں سے نہیں بلکہ اس مارچ کے انتظام کے پیچھے چھپی کہانی سے ہوتا ہے۔

کراچی میں گذشتہ برس کی طرح اس مرتبہ بھی عورت مارچ کا انتظام ’ہم عورتیں‘ نامی ایک گروپ نے کیا۔  شرکا کو شام چار بجے فریئر ہال پہنچنے کی دعوت دی گئی جہاں ایک اسٹیج سجایا گیا تھا۔ کراچی کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی عورت مارچ کے تحت ریلیوں میں خاصی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

شرکا یہ کی تعداد پچھلی ریلیوں سے زیادہ تھی اور اس کا سبب یہ تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کارکن بڑی تعداد میں اس مارچ میں شریک ہوئے۔ ان میں تقریباً مساوی تعداد مردوں کی تھی۔

عورت کو ایک آبجیکٹ بنا کر پیش کرتا پلے کارڈ
عورت کو ایک آبجیکٹ بنا کر پیش کرتا پلے کارڈ

یہ تعاون یکطرفہ نہیں۔

’ہم عورتیں‘ گروپ کی طرح سے مئی 2018 میں کراچی میں پی ٹی ایم کے جلسے کی حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔ اب جب کہ سرکاری اداروں کے انتباہ کے بعد پی ٹی ایم کی سرگرمیوں میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے تو پی ٹی ایم کارکنوں کو باہر نکلنے کیلئے عورت مارچ کی صورت میں ایک بہانہ میسر آگیا۔

فریئر ہال کراچی میں جمعہ کو عورت مارچ کا اختتام پی ٹی ایم کے مرد و خواتین کے ایک رقص کے ساتھ ہوا۔

پاکستان میں حقوق نسوں کی تحریکیں کئی عشروں سے چل رہی ہیں جن میں خواتین کے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا جاتا ہے تاہم موجودہ تحریک چلانے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ نئی تحریک ہے۔

مارچ منتظمین کے ٹوئٹر اکائونٹ سے کہا گیا کہ ٹرولنگ کا مطلب ان کی تعریف ہے
مارچ منتظمین کے ٹوئٹر اکائونٹ سے کہا گیا کہ ٹرولنگ کا مطلب ان کی تعریف ہے

لیکن المیہ یہ ہے کہ ماضی میں اگر پاکستانی عورت کی جدوجہد گھریلو تشدد اور مساوی مواقع کے لیے رہی ہے تو موجودہ تحریک پدرشاہی (patriarchy) کو ہدف بنانے کے نام پر مردوں کے خلاف تشدد کی حمایت کرتی دکھائی دے رہی ہے جس کا اندازہ ’’یاد رکھو، ساری چھریاں کچن میں ہوتی ہیں‘‘ جیسے نعروں سے لگایا جا سکتا ہے۔

کسی بڑے مقصد کی کمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ مارچ سے دو روز پہلے افضل کوہستانی کا قتل ہوا جنہوں نے کوہستان میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ تاہم افضل کوہستانی کے نام کا ایک بینر بھی ان ریلیوں میں دکھائی نہ دیا۔

افضل کوہستانی کو قریب سے جاننے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ کوہستانی اپنی 7سالہ جدوجہد میں تنہا ہی رہے اور کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔

البتہ عورت مارچ کے نام پر خیسورہ کے واقعے کو دوبارہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔

خواتین مارچ کے اس نعرے پر وسیم عباسی کا جواب وائرل ہوا۔ انہوں نے لکھا، ‘‘بتا دینے سے قیامت تو نہیں آجائے گی۔ تم بھی تو اپنا چارجر بھول جاتی ہو۔‘‘
خواتین مارچ کے اس نعرے پر وسیم عباسی کا جواب وائرل ہوا۔ انہوں نے لکھا، ‘‘بتا دینے سے قیامت تو نہیں آجائے گی۔ تم بھی تو اپنا چارجر بھول جاتی ہو۔‘‘