لکھنؤ میں کشمیریوں کو بچانے والے ظفر رضوی
لکھنؤ میں کشمیریوں کو بچانے والے ظفر رضوی

جب لکھنؤ میں کشمیریوں کو بچانا مہنگا پڑ گیا

ظفر رضوی(دائیں) کو شروع میں ہندو سمجھ کر ان کی تعریف کی گئی۔ تاہم جب ان کے دوست گورو(بائیں) نے یہ تصویر انٹرنیٹ پر ڈالتے ہوئے ظفر رضوی کو متعارف کرایا تو ہوا بدل گئی
ظفر رضوی(دائیں) کو شروع میں ہندو سمجھ کر ان کی تعریف کی گئی۔ تاہم جب ان کے دوست گورو(بائیں) نے یہ تصویر انٹرنیٹ پر ڈالتے ہوئے ظفر رضوی کو متعارف کرایا تو ہوا بدل گئی

بھارت کے شہر لکھنؤ میں دو کشمیری محنت کشوں کو انتہا پسند ہندوؤں سے بچانے والا شخص اب خود آن لائن حملے کی زد میں آگیا ہے اور انتہا پسند ہندو ہرطرف سے اس پر چڑھ دوڑے ہیں۔

اس چڑھائی کا بظاہر سبب مذکورہ شخص کا مسلمان ہونا ہے۔ دو دن سے ظفر رضوی لاکھ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہیرو بننے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے تاہم چونکہ بھارتی معاشرے میں کسی مسلمان کے ہیرو بننے کے معمولی امکان کو بھی باقی نہیں رہنے دیا جاتا اس لیے ظفر رضوی کو زیرو بنانے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

لکھنؤ میں کشمیری پھل فروشوں پر انتہا پسند ہندوئوں کا تشدد

بدھ 6  مارچ کو لکھنؤ ڈالی گنج کے پل پر ظفر رضوی نے دو کشمیری محنت کشوں کو زعفرانی کرتے پہنے انتہا پسندوں کے چنگل سے بچایا تھا۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے پر ان کی تعریف ہونے لگی۔ حتیٰ کہ مقبوضہ کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی انہیں بھارتی سیکولرازم کا چہرہ قرار دیا۔

تاہم انتہا پسند ہندوؤں کو یہ بات کہاں ہضم ہوتی۔ انہوں نے ظفر رضوی کے حوالے سے دعوے شروع کردیئے کہ وہ ہٹلر کے حامی ہیں اور یہودیوں کے قتل عام کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ جو افراد کشمیریوں کو مار رہے تھے وہ بھی سماج وادی پارٹی کے کارکن تھے اور ظفر رضوی کا تعلق بھی سماج وادی پارٹی سے ہے اور یہ کہ یہ پورا واقعہ ایک ڈرامہ تھا۔

ظفر رضوی ڈالی گنج پل پر کشمیری نوجواں(درمیان میں) کو بچانے کیلئے انتہا پسندوں سے بحث کر رہے ہیں
ظفر رضوی ڈالی گنج پل پر کشمیری نوجواں(درمیان میں) کو بچانے کیلئے انتہا پسندوں سے بحث کر رہے ہیں

یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ظفر رضوی نے بالاکوٹ میں بھارتی فضائی حملے پر سوالات اٹھائے تھے اور یہ کہ وہ دہشت گردی کے حامی ہیں۔

سوشل میڈیا پر چلائی گئی اس مہم میں بی جے پی کے کارکن بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر فیس بک اور ٹوئٹر اکائونٹس کے سکرین شاٹس شیئر کیے گئے جو بظاہر ظفر رضوی کے ہیں لیکن ایک نظر میں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ سکرین شاٹس جعلی ہیں کیونکہ ان میں کوئی اکائونٹ آئی ڈی یا ٹوئٹر ہینڈل نہیں ہے۔

اس مہم نے ظفر رضوی کو اتنا خوفزدہ کر دیا ہے کہ وہ منظر عام سے غائب گئے ہیں۔ ڈالی گنج پل کے واقعے کے حوالے سے جب بھارتی ٹی وی چینلز نے ان سے رابطے کی کوشش کی تو انہوں نے انٹرویو دینے سے صاف انکار کردیا۔

بالآخر ٹائمز آف انڈیا کا ایک رپورٹر ان سے چند سوالات کرنے میں کامیاب ہوا۔ ظفر رضوی نے کہاکہ وہ خود کو ہیرو نہیں سمجھتے، انہوں نے کشمیریوں کی جان نہیں بچائی بلکہ حقیقت میں بھارتی فوجیوں کی جان بچائی ہے کیونکہ اگر بھارت میں کشمیریوں کے ساتھ برا سلوک کیا جائے گا تو کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر حملے ہوں گے۔

اگرچہ ڈالی گنج پل پر کشمیریوں پر تشدد کرنے والے 4انتہا پسندوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور لکھنؤ پولیس اپنے ایک بیان میں بتا چکی ہے کہ  مرکزی ملزم بجرنگ سونکر مجرمانہ ریکارڈ کا حامل ہے، تاہم ہندو انتہا پسند اب اس واقعے کو ڈرامے قرار دینے پر بضد ہیں۔

کشمیریوں پر تشدد کرنے والے انتہا پسند ہندو لکھنؤ پولیس کی حراست میں ہیں
کشمیریوں پر تشدد کرنے والے انتہا پسند ہندو لکھنؤ پولیس کی حراست میں ہیں

جمعرات کو کشمیریوں کو تشدد سے بچانے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد مداخلت کرنے والے شخص کی تعریف کی گئی تھی لیکن اس وقت تک کہا جا رہا تھا کہ جو شخص مسیحا بن کر سامنے آیا وہ نہ صرف ہندو ہے بلکہ مودی کا حامی بھی ہے اور بی جی پی کا کارکن بھی۔

جب انٹرنیٹ پر مذکورہ شخص کو سراہا جانے لگا تو ظفر رضوی کے ایک دوست گورو نے اپنے ساتھ ظفر رضوی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے اس ’ہیرو‘ کا تعارف کرایا۔

اس کے فوراً بعد بھارت کے سیکولر ازم کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بدھ کو ڈالی گنج کے پل پر جب ظفر رضوی کشمیریوں کو بچانے کیلئے انتہا پسندوں سے بات کر رہے تھے تو وہاں موجود لوگوں نے بندے ماترم کے نعرے لگا کر انہیں دھمکانے کی کوشش کی جواب میں ظفر نے اس سے زیادہ اونچی آواز میں نعرہ لگایا۔