ترکی میں اپوزیشن کے حامی جشن منا رہے ہیں
ترکی میں اپوزیشن کے حامی جشن منا رہے ہیں

ترکی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج حکومت بھی چیلنج کرے گی

ترکی میں 81 میٹروپولیٹن میونسپلٹیز اور سینکڑوں ضعلی و ٹاؤن میونسپلٹیز کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج آگئے ہیں جن میں سے بیشتر پر کوئی بڑا اعتراض سامنے نہیں آیا تاہم دارالحکومت انقرہ اور ملک کے بڑے شہر استنبول میں شہری حکومتیں بنانے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ اور خود حکومت نے نتائج چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

انقرہ میں اپوزیشن جماعت سی ایچ پی نے 25 برس بعد شہری حکومت صدر اردوغان کی اے کے پارٹی سے چھین لی ہے۔ لیکن اے کے پارٹی نے کالعدم قرار دیئے گئے ووٹوں کی بھاری تعداد کو بنیاد بناتے ہوئے نتائج چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ترکی کے دارالحکومت انقرہ کی بلدیاتی حکومت ڈھائی عشروں سے اس جماعت کے پاس چلی آرہی تھی جسے پابندیوں کے سبب کئی بار نیا جنم لینا پڑا اور جو 2001 سے  ترکی کی عدالت و کلیمنہ(انصاف و ترقی) پارٹی یعنی اے کے پی کے نام سے معروف ہے۔

نجم الدین اربکان اور دیگر اسلام پسند سیاسی رہنماؤں کا ترکہ یہ پارٹی جب آخری بار پابندی کا شکار ہوئی تو اس کا نام فضیل پارٹی تھا۔ انقرہ پر اتنے طویل عرصے تک اسلام پسندوں کا یہ کنٹرول گذشتہ روز یعنی اتوار 31 مارچ 2019 کو اپوزیشن جماعت جمہوریت پارٹی(سی ایچ پی) کی فتح کے اعلان کے ساتھ ختم ہوگیا۔

تاہم اے کے پی نے اعلان کیا ہے کہ وہ انتخابی نتائج چیلنج کرے گی۔ اے کے پی کا کہنا ہے کہ انتخابات میں کالعدم قرار دیئے گئے ووٹوں کی تعداد دونوں سرکردہ امیدواروں کے درمیان ووٹوں کے فرق سے زیادہ ہے۔ حکمران جماعت نے یہ نتائج چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جمہوریت پارٹی کے منصور یاوش نے 49 اعشاریہ 75 فیصد اور اے کے پی کے محمود اوژشکی نے 47 اعشاریہ 76 فیصد ووٹ لیے ہیں۔ ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق منصور یاوش پچھلے تین بلدیاتی انتخابات میں بھی میئر کے عہدے کے امیدوار اور کافی تجربے کار تصور کیے جاتے ہیں۔ 2009 میں انہوں نے میئر کے عہدے کیلئےملی حریت پارٹی کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا۔ اس وقت ملی حریت پارٹی حکمران اتحاد میں شامل نہیں تھی۔ یاوش کے مقابلے میں اے کے پی کے امیدوار محمود ناتجربے کار تھے۔

تاہم استنبول میں حکمران اتحاد کی طرف سے سینئر رہنما بن علی یلدرم کو میدان میں اتارا گیا تھا۔ ان کے مقابلے میں اکرم امام اوغلو اپوزیشن اتحاد کے امیدوار تھے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ظاہر کیےگئے عبوری نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام اوغلو نے  اپنے حریف سے 25 ہزار ووٹ زیادہ لیے ہیں۔

لیکن بن علی یلدرم نے کہاکہ ہم بات یہ ہے کہ 3 لاکھ ساڑھے 19 ہزار ووٹ مسترد کیے گئے ہیں جو بہت بڑی تعداد ہے۔ بن علی یلدرم  نے کہاکہ فیصلہ سپریم الیکشن بورڈ(الیکشن کمیشن) کرے گا۔

ادھر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے انتخابات کے بعد ایک خطاب میں کہاکہ ترک عوام نے مسلسل 15ویں الیکشن میں اے کے پارٹی کو منتخب کیا۔ انہوں نے عوام بالخصوص کرد شہریوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں  نے کہاکہ 56 فیصد میونسپلٹیز میں حکومت اے کے پی ہی بنائے گی۔ اردوغان کا کہنا تھا کہ کل سے ہم اپنی کوتاہیاں ڈھونڈ کر ان پر قابو پانے کا آغاز کردیں گے، اگلے ساڑھے چار برس تک کوئی انتخابات نہیں ہورہے، اس دوران ہم قومی اور بین الاقوامی امور پر توجہ دیں گے۔ اے کے پی کی اتحادی جماعت ملی حریت پارٹی(ایم ایچ پی) کے سربراہ دولت بحچلی نے کہا کہ بیرونی قوتوں نے ترکی کے خلاف سازش کی تھی جو ناکام ہوگئی، معاشی غنڈوں، کرنسی گینگز اور دہشت گرد گروپوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔