فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد میں غیر قانونی تعمیرات اور قبضے واگزار کرانے کا حکم

سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں غیر قانونی تعمیرات اور قبضے واگزار کرانے کا حکم دے دیا۔عدالت نے کہا آگاہ کیا جائےغیر قانونی تعمیرات اور قبضے کب تک ختم ہوں گے؟۔

سپریم کورٹ نے سی ڈی اے کو مالی نقصان پہنچانے والے افسران سے ریکوری کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا کیا اسلام آباد کی زمین کا استعمال ماسٹر پلان کے مطابق ہو رہا ہے ؟ ماسٹر پلان کیخلاف استعمال ہونیوالی زمین کی نشاندہی گوگل میپ سے کی جائے، سی ڈی اے افسران مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے، مس کنڈکٹ کے مرتکب افسران کیخلاف سول اور فوجداری کارروائی کی جائے۔

عدالت نے حکم دیا کہ 6 ہفتے میں متعلقہ دستاویزات کیساتھ تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے، میئر اسلام آباد نے 11 ہزار کا عملہ ہوتے ہوئے بھی ہتھیار ڈال دیئے، میئر کے مطابق وہ عملے کی پوسٹنگ و ٹرانسفر بھی نہیں کرسکتے، میونسپل کارپوریشن سے یہی سلوک کرنا تھا تو بنایا ہی کیوں ؟ تمام ترقیاتی کام ایم سی آئی کی منظوری سے ہی ہوں گے، سیکریٹری داخلہ اسلام آباد کے انتظامی مسائل کا حل نکالیں۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ ایکسپریس وے پر گیا تو مجھے دیکھ کربے حد مایوسی ہوئی، اسلام آباد پلان کے مطابق نہیں رہا، اسے آدھا شہراورآدھا گاؤں بنا دیا گیا ہے، یہ خوبصورت شہر تھا جسے پلان کے مطابق تعمیر ہی نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا جو عمارتیں بنائی جا رہی ہیں وہ گر جاتی ہیں، کوئی نظام ہی نہیں، ملٹی اسٹوری بلڈنگ کی اجازت آپ کیسے دے رہے ہیں، کیا یہاں زلزلے نہیں آتے، بلڈنگ کتنا زلزلہ برداشت کر سکتی ہے؟ اس معاملے کو کون دیکھتا ہے؟ سیاستدانوں کے کہنے پر آپ نے ملٹی اسٹوری بلڈنگ کی اجازت دی۔

جسٹس گلزار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کشمیر ہائی وے پر بل بورڈز لگے ہیں جب کہ ائیرپورٹ سے اسلام آباد داخل ہونے تک کوئی لائٹ نہیں ۔

چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ گزشتہ ہفتے ہم نے بلڈنگ قواعد بنا دیئے ہیں جو پہلے موجود نہیں تھے، کشمیرہائی وے کے بورڈ اور لائٹس کی ذمہ داری میونسپل کارپوریشن اسلام آباد کی ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سی ڈی اے کشمیر ہائی وے پر ایک لاکھ پودے لگا رہا ہے اور تجاوزات کے ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ سروس روڈز کو پلازہ اپنی پارکنگ کے لیےکیسے استعمال کر رہے ہیں؟ شام کو شاپنگ مال کے چاروں اطراف دیکھیں، مچھلی بازار لگتا ہے، اسلام آباد میں مچھلی بازار والے حالات کی اجازت نہیں دی جا سکتی، پارکنگ کہاں سے لانی ہے، شاپنگ مال کا ذاتی معاملہ ہے۔

چیئرمین سی ڈی اے نے جواب دیا کہ عدالت نے درست نشاندہی کی ہے، شاپنگ مال سے محلقہ علاقے کو دوبارہ سیل کر دیا گیا ہے، شاپنگ مال نے سرکاری جالی کاٹ کر موٹر سائیکل پارکنگ بنا رکھی تھی۔

جسٹس گلزار نے کہا کہ اس جگہ کو عوام کے استعمال کے لیے بنائیں، درخت لگائیں تاکہ عوام کا بھلا ہو، یہ پارکنگ شاپنگ مال کی نہیں ہو گی، دنیا بھر میں پلازے اپنے پارکنگ کا خود اتنظام کرتے ہیں۔

عدالت نے چیئرمین سی ڈی اے سے کہا کہ ٹاپ سٹی والا علاقہ بھی کچی آبادی ہے، وہاں سٹرکیں ہی نہیں ہیں، وہاں بھی کوئی صفائی کوئی سٹرک نہیں، وہ تو ایم سی آئی کی ناک کے نیچے ہے، جہاں دل کرے وہاں جا کر جھنڈا لگا دیں کہ یہ اسلام آباد کی حد ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کشمیر ہائی وے پر کہیں سڑک پتلی اور کہیں چوڑی ہو جاتی ہے، مجھے ڈر لگتا ہے کہ میرا ڈرائیور فٹ پاتھ پر ہی گاڑی نا چڑھا دے۔

عدالت نے دوران سماعت کہا کہ میئر اسلام آباد اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار نہیں کر سکتے، آپ کے پاس بجٹ اور 11 ہزار لوگ ہیں۔

میئر اسلام آباد نے جواب دیا کہ ہمارے لوگوں کی تبادلے وزارت داخلہ کر رہی ہے جب کہ ہمارا بجٹ بھی حصے کے مطابق ہمیں نہیں دیا جا رہا۔

عدالت نے کہا کہ میئر اسلام آباد نے 11 ہزار کا عملہ ہوتے ہوئے بھی ہتھیار ڈال دیئے، میئر کے مطابق وہ اپنے عملے کی پوسٹنگ ٹرانسفر بھی نہیں کر سکتے، میونسپل کارپوریشن کے ساتھ یہی سلوک کرنا تھا تو بنایا ہی کیوں گیا؟

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سی ڈی اے کا زمینوں کے لین دین سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے، ترقیاتی کام اور فنڈ منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہونا چاہئیں، سی ڈی اے تو ایم سی آئی کا ماتحت محکمہ ہونا چاہیے تھا۔