ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے وزیر اعظم کا استقبال کیا۔فائل فوٹو
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے وزیر اعظم کا استقبال کیا۔فائل فوٹو

کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے شعبے نہیں کھولے جائیں گے۔وزیر اعظم

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جن شعبہ جات کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ زیادہ ہیں انہیں تاحال بند رکھا جائے گا، قوم ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایس او پیز پرعمل کرے۔

وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے پھیلاؤ کا علم ہوتے ہی محض 26 کیسز پر ہی ہم نے اجلاس طلب کیے اورلاک ڈاؤن کیا،اس وقت تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا حالات ہوں گے، ہم نے ڈاکٹروں سے رائے لی اورعالمی حالات کا جائزہ لیا۔

انہوں نے کہا کہ جب یورپ میں کورونا وائرس پہنچا تو ہم نے دیکھا کہ ہمارت حالات چین اور یورپ کی طرح نہیں، ہمارے ملک میں ان ممالک کے مدمقابل غربت بہت ہے، 5 کروڑ افراد دو وقت کا کھانا نہیں کھاسکتے، ڈھائی کروڑ افراد یومیہ کمانے والے ہیں جو اگر روز نہیں کمائیں گے توان کے گھر کا چولہا نہیں جلے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میرے ذہن میں تھا کہ اگر پاکستان میں یورپ جیسا لاک ڈاؤن کیا گیا تو ان غریبوں کا کیا ہوگا؟ لاک ڈاؤن سے وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اس کا علاج نہیں کیوںکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب بہت متاثر ہوا۔

عمران خان نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے امیر افراد پراثرات الگ اور کچی آبادی پرالگ طرح سے مرتب ہورہے ہیں، ہمیں وائرس کے پھیلاؤ اور بھوک وافلاس دونوں کو مدنظر رکھنا ہے، صوبوں کے پاس اختیارات ہیں انہیں بھی دیکھنا ہے، پیسے والے کچھ اورکہتے ہیں لیکن غریب طبقہ جو تکلیف میں ہے اس کی آواز سامنے نہیں آرہی، لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں کاروبار کبھی بند نہیں کرتا لیکن مجبوری میں ایسا کیا، جب تک ویکیسن نہیں ملے گا یہ وائرس ختم نہیں ہوگا امیر ترین ممالک سمیت ساری دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ہمیں اس وائرس کے ساتھ جینا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے امیر افراد پر اثرات الگ ہیں اور کچی آبادی کے رہائشی پراس کے اثرات الگ طرح سے مرتب ہورہے ہیں، ہمیں وائرس کے پھیلاؤ اور بھوک و افلاس دونوں کو مدنظر رکھنا ہے، صوبوں کے پاس اختیارت ہیں انہیں بھی دیکھنا ہے، پیسے والے کچھ اور کہتے ہیں لیکن غریب طبقہ جو تکلیف میں ہے اس کی آواز بلند نہیں ہورہی سامنے نہیں آرہی، لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کو بہت تکلیف پہنچی۔

وزیراعظم نے کہا کہ وائرس کے ساتھ کامیاب طریقے سے جینے کی ذمے داری عوام کی ہے، اگر لوگ لاک ڈاؤن کے دوران عام زندگی گزارنے لگے اوراحتیاط چھوڑدی تو اس کا نقصان عوام کو ہی پہنچے گا، ہم ایس او پیز دے رہے ہیں، جن شعبہ جات میں خطرہ زیادہ ہے انہیں تاحال بند رکھا جائے گا تاہم بقیہ تمام شعبہ جات کھلے رہیں گے جن کی فہرست جلد سامنے آجائے گی، عوام سے اپیل ہے کہ ہمیں ایک ذمہ دار قوم بننا پڑے گا۔

انہوں نے بھارت کی مثال دی کہ انہوں نے مکمل لاک ڈاؤن کیا تو وہاں عوام کا برا حال ہوا، کافی لوگ مرگئے انہیں میلوں پیدل چلنا پڑا لیکن پھر بھی وہاں کورونا وائرس پھیلا اوراسپتال بھر گئے لیکن اس کے باوجود انہیں بھی ملک کھولنا پڑے جس کی وجہ غربت ہے، میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ وائرس کے پھیلاؤ اور اموات میں اضافہ ہوگا، عوام جتنا احتیاط کریں گے ان کے لیے بہتر ہے۔

ٹائیگر فورس کے متعلق انہوں نے کہا کہ اس فورس کے اب تک دس لاکھ رضا کار سامنے آچکے ہیں، جلد اس فورس کو استعمال کریں گے کم ازکم اس سال وائرس کے ساتھ گزرا کرنا ہے اور ایس او پیز پر مکمل طور پرعمل کرنا ہے تاکہ وائرس نہ پھیلے، میری اٹلی کے وزیراعظم سے آج بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ کورونا وائرس کے مریضوں کی وجہ سے طبی عملے پر کتنا بوجھ ہے، میں اپنے ہیلتھ ورکرز کی خدمات کو سراہتا ہوں۔

انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں سے متعلق اعلان کیا کہ انہیں جلد از جلد اور بڑی تعداد میں واپس پاکستان لایا جائے گا جس کے لیے فلائٹس کی تعداد بڑھائی جائے گی۔