افغان صدر سنجیدگی سے مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔فائل فوٹو
افغان صدر سنجیدگی سے مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔فائل فوٹو

افغان حکومت کی امن معاہدے سے رو گردانی

افغان حکومت نے امن معاہدے سے روگردانی کرتے ہوئے ‘انتہائی خطرناک’ سمجھے جانے والے سینکڑوں طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکارکردیا،600طالبان قیدیوں کیخلاف ابھی بھی سنگین فوجداری مقدمات چل رہے ہیں.

دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ حکومت معاملات درست نہیں کرنا چاہتی،ہمارے کارکنان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان حکام کا کہنا ہے کہ وہ امن معاہدے کی شرائط کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے پابند ہونے کے باوجود ‘انتہائی خطرناک’ سمجھے جانے والے سینکڑوں طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے تحت 5 ہزار طالبان قیدیوں کو تبادلہ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جس کے بدلے میں طالبان ایک ہزارافغان سیکیورٹی فورسزکے قیدیوں کو رہا کریں گے۔تاہم قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ جن 600 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا کہا گیا ہے ان کے خلاف ابھی بھی ‘سنگین فوجداری مقدمات’ چل رہے ہیں۔

ایک اور سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان میں قتل، ہائی وے ڈکیتی اور یہاں تک کہ بچہ بازی کے ملزمان کے ساتھ ساتھ سینکڑوں غیر ملکی جنگجو شامل ہیں۔عہدیدار نے بتایا کہ ‘انہیں رہا کرنا بہت خطرناک ہے۔طالبان نے حکومت پرالزام عائد کیا کہ وہ قیدیوں کے خلاف جھوٹے فوجداری مقدمات تشکیل دے رہی ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ‘اگر وہ اس سلسلے میں مزید مسائل پیدا کرتے رہے تو پھر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ معاملات بہتر طریقے سے حل ہوں۔تاہم قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے زور دیا کہ حکومت مذاکرات کے لیے پرعزم ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم امن کے لیے تیار ہیں اور معاہدے کے مطابق بقیہ قیدیوں کو رہا کریں گے، بس ان قیدیوں کو نہیں جن کے خلاف عدالتوں میں سنگین فوجداری مقدمات ہیں۔

دونوں فریقین نے قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہونے کے بعد افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری تنازع کو ختم کرنے کے لیے براہ راست بات چیت کرنے کے عزم کا اظہارکیا ہے۔