میاں صاحب کے اور میرے ڈومیسائل میں فرق آپ کو نظر نہیں آتا۔فائل فوٹو
میاں صاحب کے اور میرے ڈومیسائل میں فرق آپ کو نظر نہیں آتا۔فائل فوٹو

’’نواز شریف کے بیانیے پر زرداری بھاری پڑگئے‘‘

امت رپورٹ:
ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے پر مولانا فضل الرحمن کو آمادہ کرنے کے بعد اب آصف زرداری نے تحریک عدم اعتماد سے متعلق اپنا اہم مطالبہ تسلیم کرانے کی کوششیں بھی تیز کردیں ۔ اس کے نتیجے میں ان ہاؤس تبدیلی کے بجائے نئے الیکشن کے بارے میں نواز شریف کا بیانیہ کمزور پڑنے لگا اور زرداری بھاری پڑنے لگے ۔

پی پی ذرائع کے مطابق حکومت مخالف تحریک کے آخری مرحلے میں بلاول بھٹو زرداری کو پیچھے کرکے تمام معاملات آصف زرداری نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اور یہ کہ آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم کے اہم فیصلوں پر آصف زرداری کی گہری چھاپ بالکل واضح ہوجائے گی۔

ان ذرائع کے مطابق موجودہ صورتحال میں اجتماعی استعفوں کا معاملہ تو فی الحال بالکل بیک گراؤنڈ میں چلا گیا ہے۔ لانگ مارچ کا آپشن اختیار کرنے سے پہلے بھی آصف زرداری تحریک عدم اعتماد کا حربہ استعمال کرنے کے خواہشمند ہیں۔ جس سے فروری اور مارچ کے مہینوں میں بھی لانگ مارچ کا امکان معدوم ہوگیا ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل تین بڑی پارٹیوں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے اندرونی ذرائع سے بات چیت کے بعد حکومت مخالف مہم کے مستقبل کے بارے میں جو متوقع سیناریو سامنے آیا، وہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے اعلان کے نتیجے میں فروری کے آخر تک لانگ مارچ شروع ہونے کا امکان ختم ہوگیا ہے۔

کیونکہ19 فروری کو ضمنی انتخابات کا اختتام ہوگا۔ لہٰذا اکتیس جنوری کو وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کی ڈیڈ لائن پوری ہونے پرجب اگلے مرحلے کا شیڈول طے کرنے کے لیے پی ڈی ایم قیادت بیٹھے گی تو لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے کے لیے فروری کا مہینہ دستیاب نہیں ہوگا بلکہ اس وقت پی ڈی ایم میں شامل بڑی پارٹیاں ضمنی الیکشن کے لئے اپنی انتخابی مہم کی تیاریاں کر رہی ہوں گی۔ بعد ازاں اگلے ماہ مارچ کے پہلے ہفتے میں سینیٹ الیکشن شیڈول ہیں۔ پی ڈی ایم قیادت سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ بھی کرچکی ہے، جس کا رسمی اعلان جلد متوقع ہے۔

مارچ میں سینیٹ الیکشن کے بعد پندرہ روز کے اندر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا اہم مرحلہ درپیش ہوگا۔ سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے پر پی ڈی ایم قیادت کو راضی کرنے کے بعد آصف زرداری یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ اس اہم عہدے کے انتخاب کے لیے بھی اپوزیشن کو میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ یوں مارچ کا مہینہ بھی لانگ مارچ کے لئے موزوں نہیں ہوگا۔ جبکہ اگلے ماہ اپریل کے وسط میں رمضان المبارک کا آغاز ہوجائے گا۔ اس ٹائٹ شیڈول کے تناظر میں مئی کے وسط یعنی عید الفطر تک لانگ مارچ کے لئے گنجائش نکلنا مشکل دکھائی دے رہی ہے۔

پی ڈی ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ جب گزشتہ برس اکتوبر میں حکومت مخالف تحریک کا شیڈول طے کیا گیا تھا تو اس وقت ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا کوئی خیال ذہن میں نہیں تھا۔ تاہم پیپلز پارٹی اور بالخصوص آصف زداری کے موقف نے اکتوبر میں طے شدہ حکومت مخالف تحریک کے شیڈول کو تتر بتر کرنے میں بنیادی رول ادا کیا ہے۔

ذرائع کے بقول اب آصف زرداری لانگ مارچ سے پہلے تحریک عدم اعتماد کا آپشن استعمال کرنے کے لیے پی ڈی ایم قیادت پر اپنا دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ یہ آپشن انہوں نے مستعار لیا ہے، جسے استعمال کرنے سے ان کے خیال میں پہلے پنجاب اور بعد میں مرکز میں چہرے تبدیل ہوجائیں گے لیکن نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن فی الحال تحریک عدم اعتماد کے آپشن کے سخت خلاف ہیں۔ اور ان کے بقول وہ غیبی مدد سے بنائے گئے کسی سیٹ اپ کا حصہ نہیں بننا چاہتے، لہٰذا بغیر مداخلت کے نیا الیکشن کرانے کے خواہش مند ہیں۔ تاہم آصف زرداری نجی محفلوں میں ان دونوں رہنماؤں کی اس سوچ کو دیوانے کا خواب قرار دے رہے ہیں۔ اور ان کے نزدیک زمینی حقائق اس غیبی سیٹ اپ کے ساتھ چلنے کے متقاضی ہیں۔ لہٰذا مولانا اور نواز شریف کو مثالیت پسندی سے باہر آنا ہوگا۔ اس سلسلے میں آصف زرداری نے اپنی کوششوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔

ذرائع کے بقول یکم جنوری کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں ورچوئل شرکت کے دوران بھی ایک بار پھر انہوں نے پی ڈی ایم قیادت کو لانگ مارچ سے قبل تحریک عدم اعتماد کا آپشن استعمال کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ پی پی پنجاب کے ایک رہنما اس بارے میںکہتے ہیں ’’زرداری کا جادو چل جائے گا۔‘‘

پی پی رہنما کے بقول جس طرح آصف زرداری نے ضمنی الیکشن کے حوالے سے پی ڈی ایم کو قائل کرلیا، اسی طرح تحریک عدم اعتماد کے بارے میں بھی وہ اپنا موقف منوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے جب نون لیگ اور جے یو آئی کے ذرائع سے استفسار کیا گیا تو بتایا گیا کہ ضمنی الیکشن میں اپوزیشن پارٹیوں کے حصہ لینے سے متعلق آصف زرداری نے جہاں اس میدان کو خالی چھوڑنے کے نقصانات سے آگاہ کیا، وہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اجتماعی استعفے اسپیکر کو جمع کرانے کی تاریخ ابھی فائنل نہیں ہوئی ہے، لہٰذا اصولی طورپرضمنی الیکشن میں حصہ لیا جاسکتا ہے۔ نون لیگ نے بھی آصف زرداری کے اس موقف کی تائید کی، کیونکہ اندرون خانہ لیگی رہنمائوں کی اکثریت ضمنی الیکشن لڑنے کی حامی تھی۔

ذرائع کے بقول اسی طرح یہ دونوں پارٹیاں سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کی بھی حامی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ سینیٹر چھ برس کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔ اگر حکومت قبل از وقت یا اپنی مدت پورے کرکے چلی جاتی ہے تو سینیٹ ارکان تب بھی برقرار رہیں گے اور آنے والی نئی حکومت کی مضبوطی میں کردار ادا کرسکیں گے۔

ذرائع کے مطابق ان دلائل پر مولانا فضل الرحمن کو سینیٹ الیکشن لڑنے پر بھی قائل کرلیا گیا۔ ضمنی الیکشن کی طرح سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان بھی یکم جنوری کے پی ڈی ایم اجلاس کے بعد کردیا جاتا، تاہم مولانا کے اصرار پر اس فیصلے کے باقاعدہ اعلان کو روکا گیا کیونکہ مولانا نے سینیٹ الیکشن سے پہلے لانگ مارچ کی موہوم امید اب بھی ترک نہیں کی ہے، بظاہر جس کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔

مولانا کے نزدیک لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجا جاسکتا ہے۔ لیکن ذرائع نے بتایا کہ اکتیس جنوری کو جب ڈیڈ لائن پوری ہوگی اور لانگ مارچ کی حتمی تاریخ دینے کا وقت آئے گا تو پیپلز پارٹی طویل تاریخ دینے کی کوشش کرے گی تاکہ سینیٹ الیکشن سر پر آجائیں۔ پھر سینیٹ الیکشن اور بعد ازاں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا مرحلہ آئے گا۔ ساتھ ہی رمضان بھی قریب آچکے ہوں گے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین کے انتخاب کے مرحلے تک نون لیگ اور پیپلز پارٹی لانگ مارچ آگے بڑھانے کے معاملے پر ایک پیج پر ہوں گی، لہٰذا مولانا کے پاس دونوں بڑی پارٹیوں کی بات مان لینے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوگا۔ ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد نون لیگ لانگ مارچ کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہی وہ وقت ہوگا جب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے راستے الگ ہوجائیں گے۔ کیونکہ پی پی یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ اگر تمام تر رکاوٹیں ڈالنے کے باوجود لانگ مارچ کا مرحلہ آہی گیا تو وہ دھرنے کی مخالفت کرے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے درمیان ہونے والے ٹیلی فونک رابطوں میں کئی بار اس متوقع سیناریو کو سامنے رکھ کر بات چیت ہوچکی ہے۔ دونوں رہنمائوں نے یہ اصولی فیصلہ کیا ہے کہ لانگ مارچ کے مرحلے پر اگر پیپلز پارٹی نے گریز کی پالیسی جاری رکھی تو پھر نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام، پی ڈی ایم کی دیگر چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ لے کر لانگ مارچ کریں گی۔

پیپلز پارٹی مائنس اس مجوزہ لانگ مارچ پلس دھرنے کے لیے پیسہ نون لیگ لگائے گی اور اسٹریٹ پاور جمعیت علمائے اسلام کی ہوگی۔ اس خاموش فیصلے کے تحت گزشتہ ہفتے مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کی چھوٹی پارٹیوں کے قائدین کو بھی اعتماد میں لیا ہے۔ سوائے اے این پی کے ان تمام قائدین نے اس فیصلے کی تائید کی ہے۔