علی بابا کے ہانگ کانگ شیئرز2.15 فیصد گر چکے۔فائل فوٹو
 علی بابا کے ہانگ کانگ شیئرز2.15 فیصد گر چکے۔فائل فوٹو

علی بابا کے بانی کوتنقید مہنگی پڑگئی

روپرٹ:احمد نجیب زادے:
چین کے ارب پتی بزنس مین جیک ما تاحال منظرعام سے غائب ہیں۔ جس پر مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارتی نیوز پورٹل او پی انڈیا کا کہنا ہے کہ 2019ء میں منحرف ارب پتی چینی بزنس مین گو ونگوئی نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ جیک ما کی مزید کاروباری ترقی ان کو جیل یا موت کے گھاٹ اُتار دے گی۔ کیونکہ چینی کمیونسٹ پارٹی کا اصول ہے کہ جو بزنس مین ارب پتی بن جاتا ہے تو حکومت اسے کنٹرول کرلیتی ہے۔ یہی کچھ جیک ما کے ساتھ ہوا اور ماضی میں یہی ارب پتی بزنس مین وانگ جیالنگ اور لی ہی جون کے ساتھ ہوچکا ہے جن کو اربوں ڈالرز کے جرمانوں کے بعد کاروبار محدود کرنے کی سزا دی گئی تھی۔

ادھر ہانگ کانگ سے شائع ہونیوالے جریدے ایشیا ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیک ما کی کمپنی کیخلاف چینی ریگولیٹرز کی عدم اعتماد تحقیقات ان پرکم ازکم دس ارب ڈالرزکا جرمانہ عائد کرے گی۔ جبکہ ان کے ملک چھوڑنے پر بھی پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ عالمی میڈیا کی رپورٹس میں کہا جارہا ہے کہ ممکن ہے جیک ما کو سیکیورٹی نے گھرپرنظر بند کیا ہو۔ لیکن اس ضمن میں چینی اسٹیٹ میڈیا سمیت نیم آزاد میڈیائی ذرائع خاموش ہیں اور چینی حکومت نے اس معاملے پر لب کشائی نہیں کی۔ جس سے صورتحال کافی گمبھیر سمجھی جارہی ہے۔

جیک ما کی گمشدگی کے حوالے سے ٹویٹر سمیت مغربی میڈیا کے افق پر موجود خبروں اور تجزیوں کے مطابق جیک ما ملکی مالیاتی نظام اور بینکنگ سیکٹرکی کاروباری حکمت عملی پر تنقید اور اس میں اصلاح کی خواہش کے اظہار بعد کئی ہفتوں سے غائب ہیں اور منظر عام پر نہیں آسکے۔ خود ان کی فیملی کو علم نہیں کہ وہ اس وقت کہاں اور کس حال میں ہیں؟۔

تشویشناک امر یہ بھی ہے کہ علی بابا کے چیف ایگزیکٹو جیک ما اپنی فاؤنڈیشن کے مقبول ترین ٹیلنٹ شو افریقا کے کاروباری ہیروزکے آخری راؤنڈ میں بھی نہیں آئے۔ اس مقبول شو میں اپنے آئیڈیاز پر کام کیلیے کامیاب دس افریقی تاجروں کو مشترکہ طور پر15 لاکھ ڈالر کی گرانٹس دی جاتی ہیں۔ لیکن جیک ما شو کے آخری راؤنڈ میں بطور جج شرکت یقینی نہ بنا سکے۔ جس کی وجہ سے جیک ما کے بجائے علی بابا کی شریک بانی لوسی پنگ نے جج کے فرائض انجام دیئے۔ جبکہ شو سے اخراج کے بعد اس کے منصفوں کے ویب پیج سے جیک ما کی تصویر بھی ہٹا دی گئی ہے۔ ای کامرس کی بڑی چینی کمپنی کے چھپن سالہ بانی نے 24 اکتوبر2020ء کو ایک کانفرنس میں ملک کے بینکاری کے نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ چینی بینک تجارت اور کاروبارکے بجائے رہن رکھوانے کی دکان کی ذہنیت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

واضح رہے جیک ما کی یہ تقریر آنٹ گروپ کے شیئرز کی ابتدائی فروخت سے محض چند ہفتے پہلے کی گئی تھی۔ جیک ما کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ میں گروپ کے شیئرز کی ابتدائی فروخت کو سب بڑی آئی پی او ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ جس کی مالیت 35 ارب ڈالرز تھی لیکن صرف چند ہی ایام کے بعد چین کے ریگولیٹری حکام نے شیئرز کی ابتدائی فروخت کو بڑے مسائل قرار دیکر معطل کر دیا اوع اسی کے ساتھ جیک ما کی کمپنیوں کے خلاف اقدامات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ جن میں علی بابا کے خلاف اجارہ داری قائم کرنے کے الزام کی تحقیقات بھی شامل ہے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق چین کے سب سے ہائی پروفائل آنٹر پرینر اکتوبر کے اواخر میں شنگھائی فورم میں بیان دینے کے بعد سے عوامی منظر نامے پر دکھائی نہیں دیئے۔ جہاں انہوں نے ایک تقریر میں چین کے ریگولیٹری نظام پر تنقید کی تھی۔ جیک ما کے مطابق چین کے ریگولیٹری نظام پر اختلاف کی وجہ سے علی بابا کے آنٹ گروپ کے فن ٹیک کو کم و بیش 37 ارب ڈالر کا بد ترین خسارہ ہوا تھا، جس نے جیک ما کو چینی ریگولیٹری نظام پر تنقید پر مجبور کیا۔

علی بابا کی ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ تبدیلی شیڈول کے تنازع کی وجہ سے ہوئی۔ ادھر ٹویٹر پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ چینی ریگولیٹرز نے اکتوبر کی تقریر کے بعد سے جیک ما کے کاروبار پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ جس میں علی بابا کمپنی کے خلاف عدم اعتماد کی تحقیقات شروع کرنا اور آنٹ کمپنی کو قرضے دینے اور دیگر صارفین کے مالیاتی کاروبار میں نئی تبدیلی کا حکم دینا شامل ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ کیپٹل کی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے ایک علیحدہ ہولڈنگ کمپنی کا قیام عمل میںلایا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب بیجنگ میں ٹیک کنسل ٹینسیبی ڈی اے چائنا کے چیئرمین ڈن کن کلارک نے کہا کہ ان کو یقین ہے جیک ما کو عوامی منظر نامے سے غائب ہونے کا کہا گیا ہے۔ جو حقیقی اعتبار سے ایک منفرد صورتحال ہے اور ان کی کمپنی آنٹ اور مالیاتی ریگولیشن سے متعلق حساسیت کو ظاہر کرتی ہے۔ یاد رہے جیک ما کے لاپتا ہونے کی خبروں کے بعد علی بابا کے ہانگ کانگ شیئرز 2.15 فیصد گرچکے ہیں اور مزید گراوٹ متوقع ہے۔

یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ 2018ء میں آن لائن ای کامرس کمپنی علی بابا کے بانی اور چیف ایگزیکٹو جیک ما نے اپنے عہدے سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ جیک ما کو اکتوبر میں شنگھائی کے ایک فورم پر اظہار خیال کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اپنی اس گفتگو میں انہوں نے چین کے کاروباری ضابطوں پر کڑی تنقید کی۔ جس کے باعث ان کی متعلقہ حکام سے تلخ کلامی بھی ہوئی اورعلی بابا گروپ کے 37 ارب ڈالر کے شیئر کی عوامی فروخت بھی ملتوی کرنا پڑی۔

برطانوی جریدے فنانشل ٹائمزکی رپورٹ کے مطابق جیک ما نے 2019ء میں ایک ہائی ٹیک کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ وہ ستمبر میں ریٹائر ہونے کے بعد ایک بار پھر استاد بن جائیں گے۔ مالیاتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جیک ما کو ان کی طرح یہ خدشہ لاحق ہے کہ کمیونسٹ پارٹی ان کی کاروباری سلطنت کو ایک کاری ضرب لگا کر عالمی سطح پر یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ چین میں کوئی بھی کمیونسٹ پارٹی سے بالاتر نہیں۔ ہانگ کانگ اور شنگھائی میں کمپنی کے مالیاتی شعبے آنٹ گروپ کو نومبر کے حصص کی فروخت سے 70 ارب ڈالرز سے زیادہ کی آمدنی ہوئی تھی۔ لیکن اس عوامی دلچسپی اور بڑے منافع سے خوفزدہ چینی ریگولیٹرز نے اچانک اس معاہدے کو ختم کر دیا۔ جس کے تحت ابتدا میں ہی کروڑوں چینی شہریوں نے کمپنی میں سرمایہ کاری کی اور بظاہر یہی بات چینی حکومت کے لیے پریشان کن تھی۔

ایکسپرٹس کا ماننا ہے کہ ریگولیٹرز کی جانب سے یہ جیک ما کیلئے عوامی سطح پر پہلا انتباہ تھا۔ جن کو اس وقت ریگولیٹرز نے سبق سکھانے کے لیے بلایا تھا اور اس کے بعد سے وہ معمول کے برخلاف منظر عام سے غائب ہیں۔ لیکن اب چینی حکام کی جانب سے علی بابا میں اجارہ داری کی تحقیقات کے اعلان اور ریگولیٹرز کی جانب سے آنٹ گروپ کو طلب کرنے جیسے اقدامات سے جیک ما کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے اپنے گرد گھیرا تنگ ہوتا محسوس کر رہے ہیں۔ اگرچہ جیک ما کمیونسٹ پارٹی کے رکن بھی ہیں۔ لیکن ان کے عوامی و عالمی کاروباری تعلقات کی وسعت خود ان کیلئے کسی تباہی سے کم نہیں۔

جیک ما پہلی بار انٹرنیٹ سے اس وقت متعارف ہوئے تھے جب 1990ء کی دہائی میں وہ امریکا پہنچے تھے۔ انہوں نے انٹرنیٹ سے متعلق متعدد منصوبوں پر بات کی۔ جس کے بعد دوستوں کے ایک گروپ نے 1999ء میں ان کو چین میں ایک نیا کاروبار شروع کرنے کے لیے 60 ہزار ڈالرز دیئے۔ جس کے بعد انہوں نے ایسا عروج حاصل کیا، جس کی کم ہی مثال ملتی ہے۔ علی بابا کمپنی نے کروڑوں چینی باشندوں کی خریداری کی عادات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔