فائل فوٹو
فائل فوٹو

حضرت عثمانؓ کی تحریر کردہ آیات بھی توپ کاپی میوزیم میں محفوظ

عارف انجم:
قسط نمبر 27
قرآن پاک کو پہلی مرتبہ کتابی شکل میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جمع کیا گیا۔ یہ کام جنگ یمامہ کے بعد ہوا اور اس کی روایات احادیث میں ملتی ہیں۔ حضرت ابو بکرؓ کی ہدایت پر مرتب ہونے والے نسخے کی نقول حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیار کرائیں اور اسلامی سلطنت کے مختلف حصوں کو بھیجیں۔ یہ نسخہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا اور حضرت عثمانؓ نے نقول تیار کرانے کے بعد انہیں ہی لوٹا دیا تھا۔
حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں قرآن پاک سے متعلق ہونے والے عظیم کام پر علمی بحث کی ایک طویل روایت موجود ہے۔ جس کے کئی پہلو ہیں اور جس کا یہاں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ موضوع کی نزاکت کے اعتبار سے سرسری ذکر مناسب نہیں ہوگا۔ یہاں ذکر صرف اس بات کا ہو رہا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے دور میں تیار ہونے والے نسخے کیسے محفوظ رہے اور آیا اولین دور کے کوئی دوسرے نسخے بھی محفوظ ہیں یا نہیں۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ حضرت عثمانؓ نے قرآن کریم کے جو نسخے اطراف ملک میں بھجوائے تھے، ان کی تعداد کیا تھی۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ آپؓ نے 7 نسخے لکھوائے تھے۔ جن میں سے چھ کوفہ، بصرہ، شام، مکہ، یمن اور بحرین بھجوا دیئے اور ایک اپنے پاس رکھ لیا۔ حضرت عثمانؓ کے پاس موجود نسخہ ’’مصحف الام‘‘ کہلایا۔ امام سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے قرآن کریم کے پانچ نسخے لکھوائے تھے۔ علامہ سیوطیؒ نے اپنی کتاب ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں قرآن پاک کے حوالے سے کئی باریکیوں کی وضاحت کی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی اور اردو سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
ابن داؤد کی کتاب المصاحب کے مطابق بعض افراد نے حضرت عثمانؓ کے مصحف سے اپنے ذاتی استعمال کے لئے کچھ نسخے مرتب کرلئے تھے۔ اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے اسمائے گرامی ذکر کئے جاتے ہیں۔ یہ نسخے سرکاری طور پر تحریر کردہ نسخوں کے علاوہ تھے۔ کئی روایات سے یہ واضح ہے کہ کچھ ہی عرصے میں قرآن پاک کے نسخے بڑی تعداد میں اسلامی سلطنت میں پھیل چکے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے نسخے سے لوگوں نے اپنے لیے نسخے تیار کرائے۔ یاد رہے کہ اس وقت قرآن پاک چمڑے پر ہاتھ سے تحریر کیا جاتا تھا۔
حضرت عثمانؓ نے تحریر کردہ قرآنی نسخوں کے ساتھ حفاظ صحابہ کرامؓ کو بھی قرآن پڑھانے کے لیے مختلف علاقوں میں بھیجا۔ یہ حفاظ اس لہجے میں قرآن پڑھتے تھے جس میں وہ نسخہ لکھا گیا ہوتا تھا۔ مناہل العرفان کے مطابق قرآن کریم کا جو نسخہ مدینے میں رکھا گیا تھا۔ اس کے قاری حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ مکی مصحف کے قاری عبداللہ بن شائب، شامی کے مغیرہ بن شہاب، کوفی نسخے کے قاری ابو عبدالرحمان سلمی اور بصری قرآن کے قاری عامر بن عبدالقیس تھے۔
چوتھی صدی ہجری میں مشہور سیاح ابن بطوطہ نے بذات خود قرآن کا ایک نسخہ یا اس کے کچھ حصے ملاحظہ کئے تھے۔ جن کو عثمانی تصور کیا جاتا تھا۔ یہ نسخے ابن بطوطہ نے اپنے سفر کے دوران غرناطہ، مراکش، بصرہ اور بعض دوسرے شہروں میں دیکھے تھے۔ دیگر نسخے حضرت عثمانؓ کے تیار کردہ ابتدائی 7 مصحف کی نقل تھے۔ جنہیں مصحف عثمانی کہا جاتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے پاس موجود نسخہ ’’مصحف الام‘‘ کہلاتا تھا۔
توپ کاپی میوزیم میں موجود قرآن پاک کا نسخہ حضرت عثمانؓ کے تیار کردہ نسخوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کا دوسرا نسخہ سمرقند میں ہے۔ دونوں کی ریڈیوکاربن ڈیٹنگ ہو چکی ہے۔ بنو امیہ کے دور میں بیت المقدس میں قبۃ الصخرہ (Dome of the Rock) کی تعمیر ہوئی۔ اس کے اندر قرآنی آیات تحریر کی تھیں۔ یہ آیات بھی مصحف عثمانی کے مطابق ہیں۔
مصحف عثمانی نے جہاں امت مسلمہ میں قرآن پاک کے حوالے سے اختلافات کا سدباب کیا۔ وہیں بعد کی صدیوں میں مستشرقین نے حضرت عثمانؓ کے کام کو اسلام پر حملے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ مستشرقین کی تحاریر سے اندازہ ہوتا ہے اس کام میں شدت 1970ء کے عشرے میں آئی۔ ورنہ اس سے قبل فرانسیسی مستشرق ارنسٹ رینان یہ کہہ چکے تھے کہ ’’اسلام نے ایسی پراسراریت میں جنم نہیں لیا جو دیگر مذاہب کا خاصا ہے۔ بلکہ یہ مذہب تاریخ کی روشنی میں پیدا ہوا ہے‘‘۔ 1970ء کے عشرے میں مستشرقین نے جو نیا حملہ شروع کیا۔ اس میں قرآن مجید کے حوالے سے شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
ریسرچ کے مغربی ضابطوں بالخصوص آرجیالوجیکل ثبوتوں کی ضرورت کو استعمال کرتے ہوئے قرآن پاک کے حوالے سے ہونے والی یہ مذموم کوشش بہت شدت کے ساتھ ہوئی۔ اس کا مقصد قرآن کے منبع کے بارے میں شکوک پیدا کرنا تھا۔ جان وانسبرو کی قیادت میں مستشرقین کے ایک ٹولے نے یہ دعویٰ تک کر ڈالا کہ (نعوذ باللہ) قرآن پاک حضرت محمد ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما دینے کے بہت بعد وجود میں آیا۔ مستشرقین کے یہ دعوے کئی مغرب زدہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا سبب بنے۔
لیکن پھر جدید دور کا ایک قرآنی معجزہ ہوا۔ جس کا علم رکھنے کے باوجود کئی مسلمان اس کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب مستشرقین قرآن پاک کے حوالے سے شکوک پھیلانے کے لیے سرگرم تھے اور کتابوں پر کتابیں تحریر کی جا رہی تھیں۔ سن 2015ء میں قرآن پاک کے 2 صفحات ملے۔ جن کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے ثابت ہوگیا کہ یہ صفحات 568 عیسوی سے لے کر 645 عیسوی کے درمیان تیار کیے گئے تھے۔ یعنی نبی کریم ﷺ کی دنیاوی حیات مبارکہ کے دوران یا اس کے فوراً بعد۔ یہ دریافت کئی لحاظ سے مستشرقین کے منہ پر طمانچہ تھی۔ نہ صرف یہ ثابت ہوگیا تھا کہ قرآن پاک نبی کریم ﷺ کی حیات مبارک کے قریب کے زمانے میں تحریر کیا گیا۔ بلکہ دونوں صفحات پر موجود آیات بھی مصحف عثمانی سے مطابقت رکھتی تھیں۔ یعنی قرآن پاک کے حوالے سے جتنے شکوک و شبہات گھڑنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ان سب کی نفی ہوگی۔
ان صفحات کا سامنے آنا بھی کسی حد تک حیرت انگیز واقعہ تھا۔ مشرق وسطیٰ سے لائی گئی ہاتھ سے تحریر کردہ 3 ہزار دستاویزات برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی ریسرچ لائبریری میں محفوظ ہیں۔ انہیں Mingana Collection کہا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی کی ایک طالبہ البا فضلی ان دستاویزات پر کام کر رہی تھیں۔ انہیں احساس ہوا کہ دو صفحات باقی بیشتر دستاویزات سے یکسر الگ ہیں۔ جب ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی گئی تو معلوم ہوا یہ صفحات 568 اور سنہ 645 کے درمیان کسی وقت تیار کیے گئے تھے۔ یاد رہے کہ عیسوی تاریخ کے حساب سے نبی کریم ﷺ کی پیدائش کا سن 570 عیسوی اور دنیا سے پردہ فرمانے کا سن 632 عیسوی بنتا ہے۔
برمنگھم یونیورسٹی میں موجود دو صفحات کو قرآن پاک کے قدیم ترین نسخے کے صفحات تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان دو صفحات میں سے ایک پر سورۃ کہف کی آیات 17 تا 31 اور دوسرے پر سورۃ مریم کی آیات 91-98 اور سورۃ طہٰ کی 40 آیات ہیں۔ ان صفحات کا طرز تحریر مختلف ہے۔ تاہم آیات کی ترتیب عثمانی مصحف کے مطابق ہے۔ جہاں عثمانی مصحف خط کوفی میں ہیں۔ برمنگھم میں موجود یہ صفحات حجازی لکھائی میں ہیں۔
ان صفحات کی دریافت کے وقت برمنگھم یونیورسٹی کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے کہا تھا کہ جس نے یہ لکھا ہے ممکن ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کے قریب تھے۔ ممکنہ طور پر انہوں نے پیغمبر کو دیکھا ہوگا اور ان کو تبلیغ کرتے ہوئے سنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پیغمبر کو قریب سے جانتے ہوں گے۔ اور یہ ایک اہم بات ہے۔ تھامس کا مزید کہنا تھا ’جو نسخہ ملا ہے وہ موجودہ قرآن کے قریب تر ہے۔ جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور وہ ویسا ہی ہے جیسے کہ نازل ہوا‘۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ قرآن پاک کو تحریر کرنے کا شرف کئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو حاصل ہوا ہے۔ جن میں حضرت علیؓ اور حضرت عثمان بن عفانؓ شامل ہیں۔ توپ کاپی میوزیم میں موجود تبرکات میں قرآن پاک کے عثمانی مصحف کے علاوہ ایک اور صفحہ بھی موجود ہے۔ جس پر پانچ سطریں تحریر ہیں۔ یہ سورۃ بقرہ کی آیت 190 مکمل اور آیت 191 کا کچھ حصہ ہیں۔ مذکورہ دونوں آیات یہ ہیں۔
وَقاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ الَّذِینَ یُقاتِلُونَکُم وَ لَا تَعتَدُوا، اِنَّ اللّہََ لَا یُحِبُّ المُعتَدِینَ (190) وَاقتُلُوھُم حَیثُ ثَقِفتُمُوھُم وَاَخرِجُوھُم مِّن حَیثُ اَخرَجُوکُم وَالفِتنَۃُ اَشَدُّ مِنَ القَتلِِ، وَلَا تُقٰتِلُوھُم عِندَ المَسجِدِ الحَرَامِِ حَتّیٰ یُقٰتِلُوکُم فِیہِ فَاِن قٰتَلُوکُم فَاقتُلُوھُم، کَذٰلِکَ جَزَائُ الکٰفِرِینَ…… (191)۔
اور اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑیں اور زیادتی نہ کرو، بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا (190)۔ اور انہیں قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور غلبہ شرک قتل سے زیادہ سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ تم سے یہاں نہ لڑیں، پھر اگر وہ تم سے لڑیں تم بھی انہیں قتل کرو، کافروں کی یہی سزا ہے (191)۔ (ترجمہ احمد علی)۔
یہ پانچ سطور خط کوفی میں لکھی گئی ہیں۔ تاہم اس صفحے کے نچلے حصے میں خط نسخ میں قرآن کی عبارت نقل کرنے کے بعد عربی میں ہی لکھا ہے کہ یہ حضرت عثمان بن عفانؓ کی تحریر ہے۔