بیوی کو دیکھ کر شوہر نے بھی حفظ کیلیے کمر کس لی۔فائل فوٹو
 بیوی کو دیکھ کر شوہر نے بھی حفظ کیلیے کمر کس لی۔فائل فوٹو

الجزائری خاتون کا 73 برس کی عمر میں حفظ قرآن

ضیاء چترالی:
بڑھاپے کی عمر میں انسان کا حافظہ اتنا کمزور ہوجاتا ہے کہ بہت سی باتیں ذہن سے محو ہوجاتی ہیں، مگر یہ کلام الٰہی کا معجزہ ہے کہ وہ ستر برس کے معمر افراد کو بھی بہ آسانی یاد ہو جاتا ہے۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والی ’’ام منصف‘‘ (حاجیہ خدیجہ) بھی ایک ایسی ہی باہمت خاتون ہیں، جنہوں نے73 برس کی عمر میں حفظ قرآن کریم کی تکمیل کر کے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ام منصف نے اسکول پڑھا ہے، نہ انہوں نے بچپن میں ناظرہ اور قاعدہ پڑھا تھا۔ انہوں نے اس وقت قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا، جب ان کی عمر 49 برس ہوچکی تھی۔ اس کے بعد ان کے پیٹ کا آپریشن بھی ہوا اور کمر جھک کر کمان بن گئی، مگر حاجیہ خدیجہ نے ہمت نہیں ہاری، چونکہ انہوں نے ناظرہ (دیکھ کر پڑھنا) نہیں سیکھا تھا، اس لئے انہوں نے سن کر حفظ کرنا شروع کیا۔ ابتدا میں چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد کرنا شروع کیں، اس کے بعد بڑی سورتوں کو ٹیپ ریکارڈر سے سن کر یاد کرتی رہیں۔
الجزائری اخبار الشروق کی ٹیم سے بات چیت کرتے ہوئے خدیجہ کا کہنا تھا کہ مجھے قرآن کریم کی تمام سورتیں تو یاد ہوگئی ہیں، لیکن البقرۃ، النساء اور یٰسین کیسے لکھا جاتا ہے، یہ میں نہیں جانتی اور نہ قرآن کریم میں دیکھ کر بتاسکتی ہوں کہ یہ فلاں سورۃ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے قرآن کریم کے ساتھ عشق کی حد تک محبت تھی، میں ہر وقت مسجد نبویؐ کے امام و خطیب شیخ علی الحذیفی کی آواز میں تلاوت سنتی ہوں اور انہی سے سن سن کر میں نے پورا قرآن پاک یاد کرلیا۔ حاجیہ خدیجہ سے جب پوچھا گیا کہ وہ عمر کے آخری حصے میں قرآن کریم حفظ کرنے کی طرف کیوں متوجہ ہوئیں، پہلے سے یہ مبارک کام کیوں نہیں شروع کیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ بچپن میں تو والدین اس طرف توجہ نہیں دلائی، نوجوانی میں شادی ہوگئی، شادی کے بعد شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش میں مصروف ہوگئی۔ جب سارے بچوں کی شادیاں ہوگئیں تو میں نے اپنے آپ کو حفظ قرآن کیلئے وقف کردیا، تاہم شادی کے بعد بھی میں اکثر و بیشتر تلاوت سنتی تھی۔ میرے شوق کو دیکھ کر شوہر نے کہا کہ آپ قریبی مسجد جامع خلفائے الراشدین میں تجوید کی کلاس لینے جایا کریں، میں تذبذب کا شکار ہوگئی، کیونکہ اس سے گھریلو ذمہ داریوں میں خلل واقع ہوسکتا تھا اور میں نہیں چاہتی تھی کہ اہل خانہ میں سے کسی کو ایک کو بھی میرے بارے میں کچھ کہنے کا موقع ملے کہ یہ گھریلو کاموں سے جان چھڑانے کیلئے پڑھنے جاتی ہے۔ اس لئے میں نے ان تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد حفظ شروع کیا۔
خدیجہ کے بقول انہوں نے ایک مرتبہ خواب میں اپنی ایک سہیلی کو دیکھا کہ وہ سورئہ طٰہٰ یاد کر رہی ہے اور امام ورشؒ کی روایت میں بہت خوبصورت انداز سے قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہے۔ (ورشؒ علم قرأت کے ایک مشہور امام گزرے ہیں) اس خواب کے بعد خدیجہ کے جذبات کو مہمیز ملی اور انہوں نے بہرصورت حفظ مکمل کرنے کا پختہ عزم کر لیا۔ حاجیہ خدیجہ کا کہنا تھا کہ میرے گھر والوں کو یہ تو معلوم تھا کہ میں قرآن کریم حفظ کررہی ہوں، مگر اس کے مکمل ہونے کی بات میں نے ان سے مخفی رکھی۔ کچھ عرصہ پہلے میں، میں نے مسجد کے امام صاحب کو مطلع کر دیا کہ مسجد میں میرے حفظ کی تکمیل میں ایک تقریب کا اہتمام کریں، جس کے بعد حاضرین مجلس میں مٹھائیاں تقسیم کی جائیں گی۔ جب تقریب شروع ہوئی تو میں بھی اپنی لاٹھی کے سہارے مسجد پہنچ گئی تو لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ جس ’’بچی‘‘ کے حفظ کی تکمیل پر اس پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے، وہ میں ہوں۔ اسی وقت میرے شوہر اور بچوں کو بھی معلوم ہوا کہ میں حفظ مکمل کرچکی ہوں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ بچے مجھ سے لپٹ کر رونے لگے۔
حاجیہ خدیجہ کا کہنا تھا کہ حفظ کے دوران ’’سورۃ النسائ‘‘ (عورتوں کی سورۃ) کا یاد کرنا میرے لئے سب سے مشکل ثابت ہوا، تاہم خدا کے فضل سے اسے بھی آخرکار یاد کر لیا۔ خدیجہ روزانہ کم از کم سات پارے زبانی تلاوت کرتی ہیں۔ ان کو73 برس کی عمر میں حفظ مکمل کرتے دیکھ کران کے شوہر نے بھی قرآن کریم یاد کرنا شروع کردیا ہے۔