کلینیکل ٹرائل میں مریض کی موت کا امکان 50 فیصد کم پایا گیا-فائل فوٹو 
 کلینیکل ٹرائل میں مریض کی موت کا امکان 50 فیصد کم پایا گیا-فائل فوٹو 

کورونا وبا کا علاج صرف ایک گولی سے ممکن

کورونا وبا کا علاج ایک گولی سے ممکن ہوگیا ہے۔ امریکی دوا ساز کمپنی مرک فارماسوٹیکلز نے اعلان کیا ہے کہ اس نے کورونا وائرس کے علاج پر تحقیق میں ’’تجرباتی گولی‘‘ بنائی ہے، جس کے کلینیکل ٹرائلز سے یقین کیا گیا ہے کہ اس کے استعمال سے کورونا وائرس میں مبتلا مریض کی موت کا امکان 50 فیصد کم ہوجائے گا۔ منظوری ملنے سے قبل ہی لاکھوں خوراکیں مارکیٹ کیے جانے کیلیے تیار ہیں۔

وائس آف امریکہ کے مطابق اس پیشرفت کو کورونا وبا کے خلاف عالمی لڑائی میں ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔ عالمی خبری ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق انتظامی اداروں کی طرف سے منظوری کے بعد یہ دوا کورونا کے علاج کیلئے بنائی جانے والی اپنی نوعیت کی پہلی اور واحدگولی ہوگی، جو پہلے سے موجود ان ادویات کا حصہ بن جائے گی جو ویکسین میں شامل ہیں۔

میڈیا گفتگو میں دوا ساز ادارے مرک کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی امریکہ اور دنیا بھر میں صحت کے حکام سے درخواست کرے گی کہ اس گولی کے استعمال کی فوری طور پر منظوری دے دی جائے تاکہ لاکھوں مزید جانوں کو بچایا جاسکے۔ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے فیصلہ اس درخواست کے کچھ ہفتے میں ہی سامنے آ سکتا ہے کہ یہ دوا امریکہ اورعالمی ممالک میں بیچنے اور استعمال کیلئے مستعمل ہوسکے گی یا نہیں۔ کورونا گولی کی منظوری کی صورت میں گولی کو فوری طور پر تقسیم کرنا شروع کر دیا جائے گا، جو ایک ہی دن میں لاکھوں کی تعداد میں بنائی جاسکے گی اور اس کی جامع تیاریوں اور پروڈکشن کیلیے خام مال بھی مرک کمپنی کے پاس وافر مقدار میں موجود ہے۔ لیکن ابھی تک اس گولی کی قیمت کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کھانے والی گولی ویکسین کی نسبت کافی کم قیمت ہوگی اورترقی پذیر ممالک میں بھی آسانی اور کم قیمت دستیاب ہوگی۔

یاد رہے کہ اس وقت امریکہ میں کوویڈ-19 کے تمام اقسام کے علاج میں ٹیکوں یا ڈرپس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ گھر بیٹھے کورونا گولی لینے سے اسپتالوں پر دباؤ کم کرنے اور دنیا کے ان غریب اور دور دراز کے علاقوں میں وبا کا پھیلاؤ روکنے میں مدد ملے گی جہاں ویکسین کے مہنگے علاج تک رسائی نہیں ہے۔ امریکہ کی وینڈربلٹ یورنیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر ولیم شیفنرم جو اس تحقیق میں شامل تھے، کا ماننا ہے کہ اس گولی کی ایجاد انقلاب کی مانند ہے اور اس کے استعمال سے ہمیں زیادہ لوگوں کا زیادہ تیزی سے علاج کرنے کا موقع ملے گا۔ ہمیں مکمل بھروسہ ہے کہ یہ گولی سستی اور علاج آسان فراہم کرے گی۔ مرک کمپنی کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس تحقیق اور نتائج کے حوالہ سے بیرون ملک کے ماہرین نے کلینکل ٹرائلز کا جائزہ نہیں لیا جو کسی بھی نئی طبی تحقیق کے معاملے میں معمول کا عمل ہے، لیکن امید کی جاتی ہے کہ وہ بھی مطمئن ہوجائیں گے۔ مرک کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اپنا تجرباتی ڈیٹا یو ایس فیڈریل ڈرگز اتھارٹی کو فوری طور پر پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جرمن خبری ایجنسی ڈی پی اے کا کہنا ہے کہ دنیا میں اب تک کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے کوئی دوا دستیاب نہیں تھی اور اب تک اس سلسلے میں مریض کو جو دوائیں دی جاتی ہیں وہ اس کی علامات کی شدت کو کنٹرول کرنے کیلیے ہوتی ہیں، جبکہ یہ وائرس اپنا دورانیہ مکمل ہونے کے بعد خود ہی ختم ہو جاتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکی حکام نے اس سے قبل کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کے علاج کیلیے ایک اینٹی وائرل دوا ’’ری میڈی سیور‘‘ کی منظوری دی ہے۔ جبکہ ہنگامی استعمال کیلیے تین اینٹی باڈیز تھراپیز کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن یہ تمام ادویات اسپتال میں علاج کے دوران دی جاتی ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق مرک کی یہ دوا ایک خاص انزائم کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کیخلاف کام کرتی ہے اور اس کے جینیاتی کوڈ کی نقل تیار کرتی ہے، جس سے مرض پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس جدید دوا نے کورونا کے ساتھ ساتھ دوسرے وائرسز کے خلاف بھی بہتر نتائج ظاہر کیے ہیں۔ امریکی حکومت نے کہا ہے کہ اگر ایف ڈی اے اس دوا کی منظوری دے دیتی ہے تو وہ اس کی فوری طور پر17 لاکھ خوراکیں خریدے گی، جبکہ مرک نے کہا ہے کہ وہ اس سال کے آخر تک اس نئی گولی کی ایک کروڑ خوراکیں تیار کر سکتی ہے۔