عدالت نے پیش ہونے کیلیے ساڑھے 5 بجے تک کا وقت دیا تھا۔ فائل فوٹو
عدالت نے پیش ہونے کیلیے ساڑھے 5 بجے تک کا وقت دیا تھا۔ فائل فوٹو

زمان پارک کا علاقہ نو گو ایریا بن گیا

امت رپورٹ :
زمان پارک محلے میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پارٹی کارکنوں کے مستقل اجتماع کے سبب قرب و جوار کی پچاس سے زائد چھوٹی بڑی کالونیوں کے مکین متاثر ہو رہے ہیں۔ چونکہ اس مقام پر واقع مرکزی شاہراہ (کینال روڈ) سے لاہور کی آبادی کا بڑا حصہ روزانہ گزرتا ہے۔ لہٰذا بدترین ٹریفک جام معمول بن چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں شہریوں اور پی ٹی آئی کارکنوں کے مابین آئے روز جھگڑے ہو رہے ہیں۔ اس نوعیت کے واقعات کے ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر آتے رہتے ہیں۔ اس مجموعی صورتحال میں زمان پارک کا علاقہ شہریوں کے لئے ایک طرح سے نوگو ایریا بنا ہوا ہے۔

المیہ ہے کہ باہر ہونے والے اس ہنگامے اور عوام کی تکالیف سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان لاتعلق ہیں۔ وہ اپنے عالیشان گھر کے آرام دہ ڈرائنگ روم میں چمکدار سنہری چنیوٹی صوفے پر بیٹھے مہمانوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں یا ہر دوسرے روز ’’قوم سے خطاب ‘‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بھی حیران کن امر ہے کہ انتظامیہ اس عوامی مسئلے پر کیوں خاموش تماشائی ہے؟

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی زمان پارک لاہور کی رہائش گاہ پر کارکنوں کا اجتماع تئیس جنوری کو اس وقت شروع ہوا تھا۔ جب سوشل میڈیا پر ’’زمان پارک چلو‘‘ کا ہیش ٹیگ چلا اور رات گئے پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ پر پوسٹ کی گئی کہ ’’حکومت آج رات چیئرمین عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کرے گی۔ تحریک انصاف کے کارکنان اپنے لیڈر کی حفاظت کے لئے زمان پارک پہنچ رہے ہیں‘‘۔

آج دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ کے باہر دن رات پارٹی کارکنوں کا اجتماع موجود ہے۔ یہ کارکنان ڈی جے سسٹم پر اونچی آواز میں گھنٹوں پارٹی ترانے چلاتے ہیں۔ یوں ریاست مدینہ کے دعویدار کے پڑوسی اپنی زندگی کے تلخ ترین تجربے سے دو چار ہیں۔ عمران خان کی رہائش گاہ کے ساتھ واقع معروف علمی درسگاہ ایچی سن کالج میں زیر تعلیم بچے اور ان کے والدین بھی پریشان ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شہر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ رُل گیا ہے۔ جسے روز زمان پارک کے پاس نہر کے ساتھ واقع مرکزی شاہراہ سے گزرنا پڑتا ہے۔

نمائندہ ’’امت‘‘ نے اس مستقل اجتماع کے سبب متاثرہ عوام کی پریشانیوں کا جائزہ لینے کے لئے ایک تفصیلی سروے کیا تو معلوم ہوا کہ زمان پارک اور اس کے قرب و جوار میں واقع پچاس سے زائد چھوٹی بڑی کالونیوں کے مکین ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔ ان کالونیوں کے لاکھوں مکینوں کو روزانہ کینال روڈ سے گزرنا ہوتا ہے کہ متبادل کوئی راستہ نہیں۔ جب گاڑیاں زمان پارک کے اجتماع والے مقام کے قریب پہنچتی ہیں تو بدترین ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ یوں منٹوں کے سفر میں گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ راستہ نہ ملنے پر بعض اوقات شہری، اجتماع کے شرکا سے الجھ پڑتے ہیں۔ یوں لڑائی جھگڑے بھی معمول بنتے جارہے ہیں۔

عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ پر اجتماع کے سبب سب سے زیادہ جن علاقوں کے مکینوں متاثر ہو رہے ہیں۔ ان میں دھرم پورہ، صدر، غوثیہ کالونی، مغل پورہ اور قرب و جوار کے علاقے، عامر ٹائون، ہربنس پورہ، صحافی کالونی، میڈیکل کالونی، تاج باغ، شالیمارکالونی، شالیمار باغ، جلو موڑ، لال پل اور دیگر شامل ہیں۔ خاص طور پر ٹھوکر نیاز بیگ سے آنے والے لوگوں کی زندگی عذاب بنی ہوئی ہے۔ زمان پارک سے آگے بے شمار علاقوں میں فیکٹریاں ہیں۔ ٹھوکر نیاز بیگ سمیت بیان کردہ دیگر کالونیوں کے مکینوں کو، جو ان فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ روزانہ نہر والی سڑک سے گزرنا پڑتا ہے۔

اسی طرح سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد کی گزرگاہ بھی یہی ہے۔ دراصل نہر کے اس طرف اور دوسری جانب یہ دو رویہ مرکزی شاہراہ ہے۔ نہر کے پار والی سڑک پر زیادہ رش نہیں ہوتا۔ تاہم زمان پارک والی سائیڈ پر پہلے بھی عموماً ٹریفک زیادہ ہوتا تھا۔ شہباز شریف نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں اس سڑک کو کشادہ کیا تھا۔ اس کے باوجود آفس اور اسکول ٹائمنگ میں یہاں ٹریفک جام ہوجاتا تھا۔ رہی سہی کسر پی ٹی آئی کارکنوں کے اجتماع نے پوری کردی ہے۔ زیادہ رش دو اوقات میں ہوتا ہے۔ اسکول کی چھٹی کے وقت ایک بجے سے دو بجے تک، اور پھر شام چھ بجے سے رات نو بجے تک، جب کام کے لئے جانے والے شہری اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔

زمان پارک ایک پوش علاقہ ہے۔ ایک مقامی رہائشی کے بقول یہاں ڈی ایچ اے سے بھی زیادہ امیر لوگ رہتے ہیں۔ عمران خان کی رہائش کے ساتھ ایچی سن کالج کا دروازہ ہے اور دیوار بھی لگتی ہے۔ جبکہ عقب میں میوگارڈن کا پوش ایریا ہے۔ یہاں محکمہ ریلوے اور دیگر سرکاری محکموں کے افسروں کے بنگلے ہیں۔ یہ سب پریشان ہیں۔ عمران خان کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ تئیس جنوری کی رات کو پی ٹی آئی کارکنان باقاعدہ بینڈ باجوں کے ساتھ آئے تھے۔ ساری رات مختلف گانوں کی دھن پرکارکنان کا رقص جاری رہا۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ شاید ہی کوئی پڑوسی سکون سے سویا ہو۔ بہت سوں نے یہ سوچ کر صبر کرلیا کہ ایک دو دن میں یہ قصہ ختم ہوجائے گا۔ لیکن دو ہفتے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ بینڈ باجوں کی جگہ ڈی جے سسٹم نے لے لی ہے۔ اس پڑوسی کے بقول ’’خانصاحب خود کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی پاکستانی سے زیادہ مغرب کو جانتے ہیں۔ کارکنوں کے میلے سے جس طرح پڑوسیوں اور قرب و جوار کے مکینوں کی زندگی اجیرن ہے۔ کیا یہ سب کچھ وہ برطانیہ میں کرسکتے تھے؟‘‘۔

یہ بات اب عام ہے کہ زمان پارک کی رہائش گاہ میں دبک کر بیٹھے عمران خان نے اپنی گرفتاری کے خوف سے کارکنوں کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ مقامی پارٹی عہدیداروں کی ڈیوٹیا لگائی گئی ہیں۔ ہر مقامی ذمہ دار کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے متعلقہ ضلع سے چار سو سے پانچ سو لوگ لے کر زمان پارک پہنچے۔ اب تک فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، گوجرہ، خانیوال، اوکاڑہ، شیخوپورہ، قصور، ساہیوال، چنیوٹ، گوجرانوالہ، پاکپتن اور جھنگ سمیت دیگر شہروں کے مقامی عہدیداران اپنا ٹاسک پورا کرچکے ہیں۔

ان میں سے ایک شہر کے مقامی پی ٹی آئی عہدیدار نے بتایا کہ اسے بھی چار سو بندے زمان پارک لانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ جو اس نے ایک ہفتے قبل پورا کر دیا۔ اس عہدیدار نے اعتراف کیا کہ اس مہنگائی کے دور میں جب گھر کا چولہا جلانا مشکل ترین ہوگیا ہے۔ ایسے میں اپنا کام کاج چھوڑ کر کون دل سے کہیں جاتا ہے۔ لہٰذا اس کے لئے چار سو کارکنان کو زمان پارک پہنچانے کا ٹاسک بہت مشکل ہوگیا تھا۔ چنانچہ تعداد پوری کرنے کے لئے اسے ایک سو کے قریب دیہاڑی دار مزدوروں کی خدمات لینی پڑی۔ جنہیں وہ اپنی جیب سے ان کی یومیہ دیہاڑی ادا کرکے زمان پارک لایا تھا۔ مزدوروں کو دیہاڑی بھی مل گئی اور انہوں نے شغل میلہ بھی کیا۔ اگر ٹاسک پورا نہ کیا جاتا تو وہ زیر عتاب آجاتا اور اس کے ہاتھ سے پارٹی عہدہ بھی نکل سکتا تھا۔ عہدیدار نے مزید بتایا کہ اجتماع کے شرکا کے لئے ناشتہ، دوپہر اور رات کے کھانے کی ذمہ داریاں بھی مقامی عہدیداران کو دی گئی ہیں۔ یہ سب اپنی جیب سے یہ خرچہ کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ خود بھی ’’کھوئے والے اندرسے‘‘ لایا تھا۔