کرونا وائرس سے ہزاروں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔فائل فوٹو
کرونا وائرس سے ہزاروں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔فائل فوٹو

کرونا دوسری عالمی جنگ سے بھی زیادہ تباہی پھیلا سکتا ہےَ؟

دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے جس سے نہ صرف عالمی معیشت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں بلکہ ہلاکتوں کی تعداد اورنقصانات کا موازنہ دوسری جنگ عظیم میں ہونے والے نقصانات سے کیا جا رہا ہے۔

کرونا وائرس اب تک دنیا کے203 ممالک تک پھیل چکا ہے،اموات کی تعداد 44 ہزار342 جبکہ متاثرین کی تعداد 8 لاکھ 88 ہزار877 ہو گئی ہے۔

امریکا میں گزشتہ روز800 سے زائد اموات ریکارڈ کی گئی تھیں جبکہ مزید اموات کے بعد یہ تعداد 4 ہزار سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور امریکا میں متاثرہ افراد کی تعداد بھی 1 لاکھ 88 ہزارسے زیادہ ہو گئی ہے۔

کئی یورپی ممالک میں گزشتہ روز ایک دن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں رپورٹ ہوئی تھیں جبکہ اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد 12 ہزار 428 اور مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 5 ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔

اسپین میں بھی 8 ہزار 400 سے زائد ہلاکتیں اور متاثرین کی تعداد 96 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جب کہ چین جہاں دنیا میں سب سے پہلے کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی وہاں اموات کی تعداد 3 ہزار 305 اور مریضوں کی تعداد 81 ہزار 518 ہے۔

فرانس میں بھی ہلاکتوں کی تعداد چین سے زیادہ یعنی 3 ہزار523 ہو گئی ہے جبکہ ایران میں اموات 28 ہزار98 ہو گئی ہیں۔

برطانیہ میں بھی کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یورپی ملک میں وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد 29 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اموات 2352 ہو گئی ہیں۔

پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے اب تک 26 اموات واقع ہو چکی ہیں جبکہ 2 ہزار سے زائد افراد اس وائرس میں مبتلا ہیں۔

کرونا وائرس سے ہزاروں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اورلاکھوں لوگ اس کا شکار ہیں۔ لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وبا اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں روزانہ 20 سے 30 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ فی الحال اس کی کوئی ویکسین نہیں اورکسی کے پاس حالات پر قابو پانے کا کوئی مؤثر منصوبہ بھی نہیں ۔

زیادہ تر ممالک عالمی ادارہ صحت(WHO) جیسے اداروں کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مرضی کے اقدامات کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں کے صحت کے شعبے جواب دے چکے ہیں اور دوسرے ممالک کے شعبہ صحت کے کارکنان آنے والے ہفتوں اور مہینوں کو لے کر خوفزدہ ہیں۔

بیماری  سے اب تک امریکا،اٹلی،اسپین چین، ایران،فرانس،جرمنی سمیت103 ممالک متاثر ہیں،اب تک وائرس سے44ہزار سے زائد افرد جان کی بازی ہار چکے ہیں، آئندہ دنوں میں ہلاکتوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے گی۔ یہ بربادی اورافراتفری جنگی حالات جیسی ہو گی۔

امریکا میں وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والا خوف، ہلاکتیں اور نقصانات اور پریشانی دوسری جنگ عظیم اور 9/11 کے بعد کی صورتحال سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ میں نام ظاہر نہ کرنے والے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حالات اور بحران بھیانک روپ اختیار کرسکتے ہیں۔ صرف امریکا میں مرنے والوں کی تعداد 20؍ لاکھ تک جا سکتی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت ناقد جوئی اسکاربرو کا کہنا تھا کہ یہ تعداد پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم اور ویتنام جنگ میں مرنے والے امریکیوں کی مجموعی تعداد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

چین جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، ماؤ کے ثقافتی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ منفی شرحِ نمو رکھنے والی سہ ماہی کی طرف جانے والی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ چین میں وبا پر قابو پا لیا گیا ہے، مگر اب بھی ہوبئے صوبے میں خدمات کا شعبہ بند پڑا ہے۔ بڑی صنعتیں اپنی پیداوار دوبارہ شروع کر رہی ہیں مگر پوری دنیا کے بحران میں ہونے کی وجہ سے طلب بہت کم ہے۔ چھوٹی اور درمیانی صنعت، جہاں چین کے تقریباً 80 فیصد محنت کش کام کرتے ہیں، تاحال فعال نہیں ہو سکی۔

یورپ کو شدید دھچکے کا سامنا ہے۔ خاص طور پراٹلی کو جو یورو زون کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ یورپی یونین نے سوائے 25 بلین یورو کا فنڈ قائم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا، جو پہلے سے ہی موجود تھا۔ تمام ممالک پر سے بجٹ کی پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں یعنی اب ہر ملک اپنے رحم وکرم پر ہے۔

اٹلی کے صدر نے بھی یورپی یونین کے رویے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اٹلی کو یورپ سے زیادہ تو چین سے امداد آ رہی ہے۔ مختلف ممالک نے اٹلی کے ساتھ سفری رابط ختم کرلیے ہیں۔ اس کے علاوہ چیک ریپبلک نے بھی 15 ممالک کے مسافروں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔

فرانس، جرمنی اور دوسرے ممالک نے طبّی ساز و سامان برآمد کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ بالکل 2008ء کے معاشی بحران اور پناہ گزین کے بحران کی طرح ہے جس سے یورپی یونین کے تضادات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس سے یورپی یونین کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔