قربانی کے احکام و مسائل

0

اگر عاقل بالغ مقیم عورت صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنی چیزیں ہیں کہ ان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو ایسی عورت پر قربانی واجب ہے۔
مسلمان عورتوں کا ذبح کیا ہوا جانور بلاشبہ حلال ہے، اس کا گوشت کھانا جائز ہے، البتہ چونکہ عورتیں اس کام کو کم جانتی ہیں اور دل کمزور ہونے کی وجہ سے ہاتھ نہ چلنے کا احتمال ہے، اس لئے بلا ضرورت ذبح کا کام عورتوں کے سپرد کرنا مناسب نہیں۔
اگر کسی مالدار صاحب نصاب آدمی نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خریدا، پھر وہ جانور عیب دار ہو گیا تو صاحب نصاب آدمی پر ضروری ہوگا کہ عیب دار جانور کی جگہ پر کسی بے عیب جانور کی قربانی کرے۔ اگر کسی غریب آدمی نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خریدا، پھر وہ جانور عیب دار ہوگیا تو فقیر آدمی وہی عیب دار جانور قربانی کرے کافی ہے، غریب کیلئے اس کی جگہ دوسرا جانور لیکر قربانی کرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر کسی نے قربانی کے لئے بے عیب جانور خریدا تھا مگر بعد میں کوئی ایسا عیب و نقص پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو تو اگر قربانی منت و نذر کی ہو تو اس کی جگہ بے عیب جانور کی قربانی ضروری ہے، خواہ وہ شخص امیر ہو یا غریب، اور اگر قربانی نذر و منت کی نہ ہو تو غریب کیلئے اس عیب دار جانور کی قربانی کردینا کافی ہے اور امیر پر اس کی جگہ دوسرے بے عیب جانور کی قربانی کرنا ضروری ہے۔ اگر ذبح کی تیاری میں کوئی عیب پیدا ہوگیا، مثلاً ٹانگ ٹوٹی، یا آنکھ خراب ہوگئی تو کوئی حرج نہیں، اس کی قربانی صحیح ہے۔
شہروں میں جہاں عید کی نماز ہوتی ہے، وہاں عید کی نماز سے پہلے قربانی کے جانور کو ذبح کرنا درست نہیں، اگر کسی نے ایسا کیا تو قربانی دوبارہ کرنی لازم ہوگی، البتہ گائوں جہاں پر عید کی نماز نہیں ہوتی ذبح کر سکتے ہیں۔
نبی کریمؐ نے عید کی نماز کو مقدم کیا اور قربانی کو اس کے بعد کرنے کا حکم جاری فرمایا، خواہ وہ مکہ میں ہو یا مدینہ میں یا دنیا کے کسی مقام میں۔
جو بکرا گزشتہ سال عید کے روز پیدا ہوا ہے، اس کی قربانی امسال عید کے دوسرے دن کرنا جائز ہے، کیونکہ سال پورا ہو چکا ہے۔
کسی غریب نے جس پر قربانی واجب نہیں تھی، محض اپنی خوشی سے قربانی کردے اور اس کے بعد قربانی کے ایام میں ہی وہ صاحب نصاب امیر بن گیا تو اب اس پر دوسری قربانی کرنا واجب ہے۔ اگر کسی غریب آدمی کو ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے کہیں سے مال دستیاب ہوگیا اور وہ صاحب نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔ اگر کوئی شخص غریب ہے، اس پر قربانی واجب نہیں ہے اور اس نے قربانی کی نیت سے جانور خریدلیا ہے، تو اس جانور کی قربانی اس پر واجب ہو جائے گی۔ لیکن اگر اس کا یہ جانور مرگیا تو یہ واجب ساقط ہو جائے گا۔ اس پر دوسری قربانی واجب نہیں ہوگی اور اگر غریب آدمی نے پہلا جانور گم ہونے کے بعد دوسرا جانور خرید لیا پھر پہلا بھی مل گیا تو اس پر دونوں جانوروں کی قربانی کرنا واجب ہوگا، کیونکہ غریب آدمی قربانی کی نیت سے جتنے جانور خریدتا جائے گا سب کی قربانی واجب ہوتی جائے گی۔
اگر کسی نے کسی کے جانور کو غصب کر کے قربان کر ڈالا تو قربانی ادا ہو جائے گی، البتہ غاصب پر ضروری ہوگا کہ مالک کو جانور کی قیمت ادا کر دے۔
جو جانور ناپاکی، غلاظت کھاتا ہے، اس کے باندھنے (پابند رکھنے) سے پہلے اس کی قربانی جائز نہیں ہے، البتہ اگر چند روز کے لئے باندھ کر چارہ وغیرہ کھلایا جائے، کھلا اور آزاد پھرنے نہ دیا جائے تاکہ گندگی اور غلاظت میں منہ ڈالے تو اس کی قربانی درست ہے، اگر اونٹ ہے تو چالیس روز، گائے، بھینس، بیل وغیرہ کو بیس روز اور بکرا، بکری کو دس روز بند رکھ کر چارہ کھلایا جائے۔
ذبح کیے ہوئے جانور کا گوشت حلال ہونے کیلئے ذبح کرنے والے کا مسلمان یا کتابی ہونا شرط ہے۔ غیر مسلم اور غیر کتابی کا ذبح کیا ہوا جانور حلال نہیں۔
قربانی کے جانور سے فائدہ اٹھانا مکروہ ہے اور صحیح قول کے مطابق مالدار اور غریب اس حکم میں برابر ہیں۔
اگر کسی شہر میں فساد ہوگیا اور نماز پڑھنا مشکل ہوگیا، اور لوگوں نے صبح صادق طلوع ہونے کے بعد ہی قربانی کر لی تو درست ہے۔
ہر سال صاحب استطاعت مسلمانوں پر جانور کی قربانی کرنا جو واجب ہے وہ حضرت ابراہیمؑ کی یادگار ہے، اس لئے جانور ذبح کرنے کے بجائے اس کی قیمت صدقہ کر دینے سے قربانی کی ذمہ داری ادا نہیں ہوگی اور حضرت ابراہیمؑ کی یادگار پر عمل نہیں ہوگا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More