مرزا داے کی اوائلی شاعری میں عشق کی جھلک نظر آتی ہے

0

نواب مرزا داغ کی بالکل اوائلی شاعری میں جگہ جگہ معاملات اور وقوعات یوں سلک نظم میں آئے ہیں کہ ذاتی واردات کی باپردہ جھلک نظر آجاتی ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ داغ کی شاعری میں جسمانی حسن کا بیان کم کم ہے اور شروع کے کلام میں تو نہیں کے برابر ہے۔ گویا اسے اپنی خالہ زاد کے ناموس اور حجاب کا لحاظ ہو۔ ذیل کے شعروں میں نوجوان عاشق کی خود پر مباہات اور بیان حسن و اظہار تمنا میں احتیاط غیر معمولی لطف کے حامل ہیں
تمہیں کہو کہ کہاں تھی یہ وضع یہ ترکیب
ہمارے عشق نے سانچے میں تم کو ڈھال دیا
بتائیں لفظ تمنا کے تم کو معنی کیا
تمہارے کان میں اک حرف ہم نے ڈال دیا
بعد کے نکتہ دانوں نے داغ کی شاعری کو زنان رقاصۂ بازاری کی مرغوب شاعری کہا۔ ممکن ہے انہوں نے ایسا ہی دیکھا ہو، لیکن اوپر درج کردہ شعروں کی نفاست اور تمکین اور بھولی بھالی متانت سے تو ایسا کہیں سے نہیں لگتا۔ نواب مرزا کے مزاج میں کچھ شوخی اور کھلنڈرا پن ضرور تھا، لیکن اس کا اظہار موقعے موقعے سے ہی ہوتا تھا اور جس زمانے کا ہم ذکر لکھ رہے ہیں، وہ زمانہ تو نواب مرزا کے لئے کئی طرح کے بحران کا زمانہ تھا اور اس وقت اس کا کھلنڈرا پن، خاص کر عشق کے معاملے میں شاذ ہی بروئے کار آتا تھا
پروانہ پاس شمع کے بلبل ہے گل کے پاس
اک میں کہ تیری بزم میں خلوت گزیدہ ہوں
اے آرزوئے تازہ نہ کر مجھ سے چھیڑ چھاڑ
میں پائے شوق و دست تمنا بریدہ ہوں
پندرہ سولہ برس کا لڑکا ایسے شعر تبھی کہہ سکتا تھا جب شاعری کی سرحدیں مضمون آفرینی سے آگے نکل جائیں۔ معشوق سے معاملہ جب گھریلو سطح پر اور مانوس ماحول میں ہو تو ہی ایسے شعر ہو سکتے ہیں
تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنا
اسی غزل میں یہ شعر بھی ہے اور کچھ عجیب بات نہیں کہ پندرہ برس کی عمر کا داغ جب زینت باڑی کے مشاعرے میں اسے پڑھے تو امام بخش صہبائی جیسا دبنگ استاد اپنی جگہ سے اٹھے اور شاعر کو گلے لگا لے
لگ گئی چپ تجھے اے داغ حزیں کیوں ایسی
مجھ کو کچھ حال تو کمبخت بتا تو اپنا
اسی رنگ میں ایک اور بھی دلکش مضمون آفرینی کا نمونہ ملاحظہ ہو، ایسا شعر تعقل اور تصنع دونوں سے بے نیاز ہے
سادگی بانکپن اغماض شرارت شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
اسی مضمون کو عرفی نے اپنے بے مثال، پیچیدہ اور تعقلاتی اسلوب میں یوں بیان کیا تھا
ازاں بہ درد دگر ہر زماں گرفتارم
کہ شیوہ ہائے ترا باہم آشنائی نیست
حق یہ ہے کہ عرفی کے مضمون کی نزاکت اور اس سے بڑھ کر معنی کے امکانات کی وسعت ایسی ہے کہ داغ کا شعر بظاہر پھیکا اور گھریلو معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہی گھریلو پن تو اس معاملے کی جان ہے، اور ’’انداز‘‘ کے لفظ کا گھریلو پن ’’شیوہ‘‘ کے مقابلے میں اپنے حسن کو منوا رہا ہے۔ پھر اس سے بڑھ کر ’’جی جانتا ہے‘‘ اس قدر بے تکلف اور محاوراتی زور رکھتا ہے کہ زبان ہندی کے ایجاز اور ہندی شاعر کے اعجاز پر ایمان لانا پڑتا ہے۔
سہل ممتنع کا جو طرز بعد میں داغ کی شاعری کا امتیازی نشان بنا، درحقیقت شروع ہی سے ان کے یہاں موجود تھا، جس کی وجہ غالباً فاطمہ کا عشق ہی تھا کہ جوانی کے برگ و بار لاتے ہوئے قادرالکلامی کے مزے اٹھاتے ہوئے اس نوباوۂ حدیقۂ شعر و سخن کا جی چاہتا تھا کہ غیر پیچیدہ اور غیر استعاراتی، غیر رسمی زبان میں اپنے معشوق سے اپنے دل کا حال کہے
شب ہجراں سے موت بہتر ہے
خواب آرام سے تو آئے گا
کبھی اپنا بھی دور خوش اے داغ
دور ایام سے تو آئے گا
چین دیتے نہیں وہ داغ کسی طرح مجھے
میں جو مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہوگا
کہا ظالم نے میرا حال سن کر
وہ اس جینے سے مر جائے تو اچھا
شمع رو آپ گو ہوئے لیکن
لطف سوز و گداز کیا جانیں
اپنی تعریف سے چڑھتے ہو اگر جانے دو
چشم بد ہمارا ہی جمال اچھا ہے
آپ پچھتائیں نہیں جور سے توبہ نہ کریں
آپ گھبرائیں نہیں داغ کا حال اچھا ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ مضمون کے لحاظ سے یہ اشعار معاملہ بندی کی غزل کی رسومیاتی دنیا کے باہر نہیں ہیں۔ لیکن ان کے لہجے میں کچھ ایسا فوری تقاضا، التجا کی کچھ ایسی عجلت تھی کہ ان مضامین کو مبنی بر اصلیت تسلیم کئے ہی بنتی تھی۔ فاطمہ کی خوشنودی، فاطمہ کے ایک تبسم کی تمنا میں طرح طرح کے منصوبے بنانا، فاطمہ کی ذرا سی تغافل شعاری، اصلی اور واقعی یا محض فرضی، پر پہروں رنجیدہ رہنا اور کڑھنا، ان سب کیفیات کا نچوڑ اس وقت کے کلام داغ میں جگہ جگہ نمایاں ہے۔ کسی نہ کسی بہانے سے ایک دو بار فاطمہ کے یہاں کا چکر ضرور لگا لینا، بازار دکان کے کام خود کر لانے کی پیشکش کرنا، کسی بنا پر فاطمہ اس وقت گھر پر نہ ہوتی تو دل میں ہزار طرح کے شکوے اس وقت تک پالتے رہنا جب تک فاطمہ سے ملنا نہ ہو اور وہ مسکرا کر نہ پوچھ لے کہ آپ اب تک کہاں تھے، یہ نواب مرزا کے روزانہ کے معمول تھے۔
ادھر یہ بھی ہے کہ نواب مرزا کو شربت یا پان پیش کرتے ہوئے فاطمہ کے منہ پر حیا کی ہلکی سی رمق، ڈھلکے ہوئے آنچل کو جلدی سے برابر کر کے ایک ہاتھ سے سینہ ڈھانکنے اور دوسرے ہاتھ سے پان کی طشتری سنبھالنے کی کوشش، دسترخوان پر اس بات کا خاص اہتمام کہ کوئی خاص کوشش نظر نہ آئے، لیکن کھانے کی ہر اچھی چیز سب سے پہلے نواب مرزا کے سامنے رکھی جائے، یہ سب کسی تعلق کے غماز نہ تھے تو اور کیا تھے؟ نواب مرزا کی دستک میں اپنائیت کا ایک انداز تھا، ایک آہنگ تھا جسے فاطمہ خوب پہچان گئی تھی۔ اگر وہ دستک کسی دن سورج چڑھنے کے بعد تک نہ سنائی دیتی تو فاطمہ کی نگاہیں بار بار دروازے کی طرف اٹھتیں۔ نواب مرزا کو اس بات کی خبر نہ تھی، لیکن دستک ہوتے ہی جس مستعدی سے وہ شیریں آواز سنائی دیتی، جس ہلکی سی مسکراہٹ اور ہلکی سی حیا کے ساتھ وہ گل دوپہریا جیسی نازک اور دھوپ سے کچھ بے پروا سی، لیکن دھوپ ہی کو دیکھ دیکھ کر جیتی ہوئی زندگی سے بھری ہوئی آواز اس کے کانوں تک آتی، ’’آجایئے پردہ نہیں ہے‘‘، اس سے نواب مرزا کو صاف معلوم ہوتا تھا کہ بلانے والی اسے محض رسماً گھر کے اندر نہیں بلا رہی ہے، بلکہ زبان حال سے میرزا بیدل کا شعر پڑھ رہی ہے
جب دل کے آستاں پر عشق آن کر پکارا
پردے سے یار بولا بیدل کہاں ہے ہم میں
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More