نواز شریف صاحبزادی اور داماد سمیت پیرول پر رہا

0

اسلام آباد/لندن/ لاہور(نمائندگان امت/مانیٹرنگ ڈیسک)سابق وزیر اعظم نواز شریف کوصاحبزادی اور دامادسمیت اڈیالہ جیل سے پیرول پر رہا کردیا گیا۔انہیں رات گئے نجی طیارے کے ذریعے لاہور منتقل کیا گیا۔ اس موقع پرسابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی ان کے ہمراہ تھے۔جاتی امراپہنچنے پر نواز شریف کی والدہ اور خاندان کے دیگر افراد سے ملاقات کے موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔مرحومہ کلثوم نواز نے بیٹوں کے ہاتھوں لحدمیں اترنے کی خواہش ظاہر کی تھی ،تاہم محفوظ راستہ ملے بغیر حسن،حسین نواز کی واپسی مشکل ہے۔ذرائع کے مطابق شہباز شریف کی درخواست پرمحکمہ داخلہ پنجاب نے کلثوم نواز کی تدفین میں شرکت کیلئے سابق وزیر اعظم ،ان کی صاحبزادی اور داماد کی پیرول پر رہائی کی اجازت دی۔نوٹیفیکیشن کے مطابق انہیں جاتی امرا تک ہی محدود رکھا جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے پیرول پر5روزکیلئے رہائی کی درخواست دی تھی ،تاہم ابتدائی طور پر 12 گھنٹے کی اجازت دی گئی۔آج پنجاب کابینہ کے اجلاس میں اس میں توسیع کی منظوری دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق کلثوم نواز کے انتقال کے فوری بعد پنجاب حکومت نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کوکلثوم نواز کی نمازجنازہ سے تدفین تک رہائی دینے کا فیصلہ کر لیا تھا ،تاہم محکمہ داخلہ کا کہنا تھا کہ پیرول پررہائی کے لیے درخواست ملنا ضروری ہے۔ دوسری طرف نواز شریف نے ابتدائی طور پر درخواست دینے سے انکار کر دیا تھا ،جس کی تصدیق رانا ثنا نے بھی کی تھی۔ رانا ثنا کا کہنا تھا کہ حکومت بغیر درخواست کے نواز شریف، مریم اور کیپٹن(ر) صفدر کو رہا کرے ،جبکہ خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ حکومت نے نواز شریف اورمریم نواز کی پیرول پر رہائی کیلئے درخواست دینے کا کہہ کر انتہائی چھوٹی بات کی، حکومت نے ظرف دکھانا ہے تو ان کو رہا کردے۔تاہم شہباز شریف نے معاملے کو سنبھالا اور رات کو تینوں قیدیوں کی پیرول پر رہائی کی درخواست پنجاب حکومت کو دی تھی جس کے فوری بعد صوبائی محکمہ داخلہ نے12 گھنٹے کیلئے نواز شریف، مریم اور کیپٹن(ر) صفدر کو رہا کردیا۔دریں اثنا لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ محفوظ راستہ ملے بغیر کلثوم نواز کی میت کے ساتھ حسن اورحسین نواز کی لندن سے واپسی مشکل ہے جبکہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار انکے خاندان کا کوئی فرد اورشہباز شریف کے دامادعلی عمران بھی پاکستان نہیں پہنچیں گے۔ ذرائع کے مطابق حسن اور حسین نواز کا پاکستان آنا ان کی گرفتاری کا باعث بن سکتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے بیگم کلثوم نواز کی خواہش تھی کہ ان کے بیٹے انہیں لحد میں اتاریں۔ اس حوالے سے لیگی حلقوں نے حکومت کو بالواسطہ پیغام بھجوایا تھا کہ حسن اورحسین نواز کو والدہ کی تدفین میں شرکت کیلئے آمد کے بعدواپسی کیلئے محفوظ راستہ دیا جائے تاہم عدالتی معاملہ ہونے باعث اس سے انکار کردیا گیا۔ماہر قانون اظہر صدیق نے ’’ امت ‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانونی طور پر نواز شریف سمیت دیگر کی پیرول پر رہائی کوئی رکاوٹ نہیں ،اس کے لیے وفاقی یا صوبائی حکومت مچلکے کی رقم مختص کرنے کی مجاز ہے۔انہوں نے کہا کہ پیرول کے لیے اہل خانہ کی جانب سے درخواست دینا ضروری ہے ۔ لاہور لانے کے لیے احتساب عدالت سے بھی اجازت لینا ہوگی۔ حسن نواز اور حسین نواز حفاظتی ضمانت کروا کر پاکستان آسکتے ہیں لیکن ای سی ایل میں نام ہونے کے باعث ملک سے باہر نہیں جاسکیں گے۔ ذرائع کے مطابق لندن سے کسی عام آدمی کی میت آنے میں دس سے پندرہ دن لگ سکتے ہیں ،لیکن شریف خاندان کی غیر معمولی سیاسی اہمیت کے پیش نظر بیگم کلثوم نواز کی میت غیر معمولی طور پر جلدی پہنچ جائے گی۔ ذرائع نے ”امت“ کو بتایا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیگم کلثوم نواز کی حالت کئی ماہ سے تشویشناک تھی۔ ڈاکٹر اور اہل خانہ پوری کوشش میں تھے کہ کسی طرح کوئی معجزہ ہوجائے لیکن اس کے باوجود شریف خاندان نے ان دستاویزات کی تیاری کسی حد تک پہلے ہی مکمل کرلی تھیں جو میت پاکستان لانے کیلئے ضروری ہوسکتی تھیں۔ ذرائع کے مطابق جاتی امرا میں بیگم کلثوم نواز کی تدفین کا فیصلہ بھی پہلے ہوچکا تھا۔قبل ازیں وزیراعظم عمران خان کو اجلاس کے دوران بیگم کلثوم نواز کے انتقال کی اطلاع دی گئی، عمران خان نے گہرے دکھ اورافسوس کا اظہار کرتےہوئے مرحومہ کیلئے فاتحہ خوانی کروائی۔وزیراعظم نے اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم ان کی صاحبزادی اور داماد کو سابق خاتون اول کے جنازے میں شرکت کی اجازت دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو اس حوالے سے تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کی بھی ہدایت کی۔عمران خان نے پاکستانی حکام اور لندن ہائی کمیشن کو کلثوم نواز کی میت کی وطن واپسی کیلئے اہل خانہ کو بھرپور تعاون فراہم کرنے کی بھی ہدایت بھی کی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More