منی لانڈرنگ کیخلاف نیب کا خصوصی شعبہ متحرک کردیا گیا

0

عمران خان
بیرون ملک اثاثے بنانے والوں کے خلاف منی الانڈرنگ اور آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے مقدمات تیار کرنے کیلئے نیب کے خصوصی شعبے نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ پاناما اسکینڈل، پیراڈائز اسکینڈل اور متحدہ عرب امارات میں آف شور کمپنیاں اور اثاثے بنانے والوں کے خلاف کارروائی کیلئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تحت نیب کو پہلی بار متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جبکہ ایف آئی اے اور ایف بی آر میں گزشتہ تین برس سے جاری تحقیقات کے بعد مرتب ہونے والی لسٹوں کا ریکارڈ نیب اسلام آباد ہیڈ کوارٹر میں پہنچا دیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول نیب کے ذریعے پاکستان سے متحدہ عرب امارات میں اربوں روپے کا زرمبادلہ منتقل کرنے کا سبب بننے والی دبئی کی دو کمپنیوں دماک اور ایمار کے پاکستانی نمائندوں کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے، جنہوں نے دونوں کمپنیوں کیلئے کراچی پراپرٹی نمائشوں کا انتظام کیا تھا۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہونے والی ان نمائشوں کے انعقاد میں مقامی قوانین کے برخلاف ہزاروں پاکستانی شہریوں سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرائی گئی اور یہ رقوم ان کمپنیوں کے پروجیکٹس میں دبئی میں ٹرانسفر کرائی گئی ۔
اہم ذرائع کے مطابق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تحت بیرون ملک خفیہ اثاثے بنانے والوں کے خلاف کی جانے والی تحقیقات کے حوالے سے گزشتہ ہفتے وفاقی وزارت داخلہ میں ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری مالیات کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر نے شرکت کی۔ اس اعلیٰ سطح اجلاس میں اس اہم نکتے پر غور کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں بیرون ملک دولت منتقل کرنے والے پاکستانیوں کے حوالے سے پیش کردہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ پاناما اسکینڈل، پیراڈائز اسکینڈل اور متحدہ عرب امارات میں آف شور کمپنیاں رکھنے والوں اور اثاثے رکھنے والے شہریوں کی ایف آئی اے اور ایف بی آر کو ابتدائی طور پر موصول ہونے والی فہرستوں میں 6000 سے زائد شہریوں کے نام شامل تھے۔ تاہم ان میں سے 3000 سے زائد شہریوں کے مکمل کوائف اداروں کو مل ہی نہیں سکے، جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی آگے نہیں بڑھ سکی۔ جبکہ دیگر 3000 سے زائد شہریوں کو نوٹس بھیجے گئے اور ان کے بیانات بھی قلمبند کرلئے گئے جس کے بعد ان 3000 شہریوں میں سے بھی اپنے اثاثے ظاہر کرنے والے اور انکم ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے بعد ان کے خلاف کارروائی کو محدود کردیا گیا۔ تاہم اب بھی 1200 ایسے بڑے مگرمچھ ہیں، جن میں سے بعض نے اپنے اثاثے ڈکلیئر نہیں کئے اور نہ ہی نوٹسز کے جواب دیئے ہیں۔ بلکہ بعض نے اپنے اثاثوں سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ ان میں کئی سرکاری افسران بھی ہیں۔ جبکہ زیادہ تر پرائیویٹ شہری ہیں۔ ان میں سے بعض پر شبہ ہے کہ وہ سرکاری افسران اور سیاسی شخصیات کے فرنٹ مین بھی ہیں۔ میٹنگ میں اس بات پر غور کیا گیا کہ ایف آئی اے کے تحت ان 1200 میں سے صرف ان بڑے مگرمچھوں کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے جو سرکاری محکموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ ایف بی آر کے تحت ان افراد سے انکم ٹیکس وصولی کی کارروائی کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے، تاہم ان افراد کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کی کارروائی نیب کے تحت کی جاسکتی ہے۔ تاکہ نہ صرف ان سے ٹیکس وصول کیا جائے، بلکہ ان سے یہ بھی تحقیقات کی جائے کہ انہوں نے بیرون ملک اثاثے اور سرمایہ کاری کیلئے رقم کن ذرائع سے کمائی اور کس ذریعے سے بیرون ملک منتقل کی ہے۔ذرائع کے بقول گزشتہ ہفتے اس اجلاس سے قبل ایف آئی اے کی جانب سے پاکستانی شہریوں کے بیرون ملک موجود اثاثوں، کالے دھن کی منتقلی اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے 56 انکوائریوں پر رپورٹ مکمل کرکے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی جس میں ایف بی آر کی تحقیقات بھی شامل تھیں۔ ذرائع کے بقول تین بر س قبل سورس رپورٹ پر ملک بھر کے 4 ہزار 500 سے زائد شہریوں کی تحقیقات شروع کی گئی تھی، جنہوں نے دبئی کی دو بڑی انٹر نیشنل پراپرٹی کمپنیوں داماک اور ایمارکے ذریعے متحدہ عرب امارات میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی تھی، جس کیلئے پاکستان سے کمایا گیا کالا دھن دبئی منتقل کیا گیا اور منی لانڈرنگ بھی کی گئی۔ ذرائع کے بقول اس سورس رپورٹ پر تحقیقات کو آگے بڑھایا گیا تو صرف ایف آئی اے سندھ کے حصے میں 422 شہری آئے، جن کی متحدہ عرب امارات میں 1800سے زائد جائیدادوں کا سراغ ملا، جن کی مالیت 40 ارب روپے سے زائد ہے۔ ان پاکستانیوں کو نوٹس ارسال کر کے بیانات اور تفتیش کیلئے طلب کیا گیا اور ابتدائی طور پر سندھ، پنجاب، خیبر پختون، بلوچستان اور اسلام آباد میں 56 انکوائریاں شروع کی گئیں، جن میں سے ہر انکوائری میں 100 کے لگ بھگ پاکستانیوں کے کوائف شامل کرکے مختلف تفتیشی افسران کے سپرد کئے گئے۔ اس کے علاوہ پاناما اسکینڈل اور پیراڈائز اسکینڈل میں بھی 500 سے زائد پاکستانی شہریوں کے نام سامنے آئے جنہوں نے بیرون ملک اثاثے بنا رکھے ہیں۔ ذرائع کے بقول ان میں سے صرف سندھ میں 26 انکوائریاں کی گئیں جنہیں باقاعدہ طور پر 6 ماہ قبل فوجداری انکوائریوں یعنی تحقیقات میں تبدیل کیا گیا۔ اس پر کام پر موجودہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کے آنے کے بعد کام مزید تیزی سے آگے بڑھایا گیا۔ واضح رہے کہ فنانشل ٹاسک فورس میں وفاقی وزارت داخلہ، وفاقی وزارت خزانہ اور وفاقی وزارت خارجہ کے علاوہ وفاقی وزارت صنعت و تجارت کے سیکریٹریز شامل ہیں۔ جبکہ اس میں ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے افسران کے علاوہ ایف بی آر کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More