امریکی نظام انصاف سیاہ فام شہریوں کیلئے عذاب بن گیا

0

نذر الاسلام چودھری
بظاہر چمکتا دمکتا امریکی نظامِ انصاف امریکی شہریوں، بالخصوص سیاہ فام امریکیوں کیلئے سوہان روح بن گیا۔ سینکڑوں امریکی شہری متعصب اور بے ایمان نظام انصاف کی بھینٹ چڑھ کر ناکردہ جرائم کی سزا بھگتنے پر مجبور ہیں۔ 1988ء سے اب تک 30 برسوں میں دو ہزار سے زیادہ سیاہ فام نوجوانوں کو ’’جرم بے گناہی‘‘ میں جیلیں کاٹنی پڑی ہیں۔ ان بے گناہ نوجوان امریکیوں کو اپنی قانونی جنگ میں فتح یاب ہونے تک زندگی کے کم از کم تین قیمتی برس ضائع کرنے پڑے۔ جبکہ زیادہ سے زیادہ عمر کا ضیاع 30 برس رہا۔ ریاست مشی گن میں ایسے کیسوں کی تحقیق کرنے والے امریکی ادارے، نیشنل رجسٹری آف ایگزو نیریشن نے تصدیق کی ہے کہ کسی بھی سفید فام نوجوان کی بہ نسبت کسی سیاہ فام نوجوان کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے نہ صرف جیلیں کاٹنی پڑیں بلکہ قیمتی ماہ و سال بھی جیلوں میں گزارے۔ امریکی یونیورسٹی آف مشی گن سے تعلق رکھنے والے لاء پروفیسر، سیموئیل آرفو گروس نے امریکی نظام انصاف کی اس کجی کو’’مجرمانہ‘‘ قرار دیا ہے۔ وہ امریکی ادارے، نیشنل رجسٹری آف ایگزو نیریشن کے سینئر ایڈیٹر بھی ہیں۔ یہ ادارہ قانونی سقم کے تحت گرفتار بے گناہوں کو جیلوں سے نکالنے کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ امریکی میڈیا نے تسلیم کیا ہے اگرچہ کہ درجنوں شہریوں کو ہر سال طویل مقدمہ بازی کے نتیجے میں عدالتوں کو مطمئن کرکے رہائی مل رہی ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے ان کی زندگی کے قیمتی ماہ و سال برباد ہونے کے اعتراف کے باوجود ان کی بہبود کیلئے عملی اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں۔ غیر جانبدار امریکی ادارو ں سمیت حقوق انسانی کی تنظیموں اور چنیدہ میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی پراسیکیوٹرز اور نظام انصاف کی بے ایمانیاں، غلط تفتیش اور جھوٹی گواہیوں کے نتیجے میں ایسے بے گناہوں کو جیل کی مشقت اور مجرم کہلائے جانے کی ذلت اُٹھانی پڑی ہے جو جرم انہوں نے کئے ہی نہیں تھے۔ نیوز چینل سی این این نے ایک رپورٹ میں حال ہی میں جیل سے 27 سال قید کاٹنے کے بعد رہائی پانے والے سیاہ فام امریکی 41 سالہ جان بن کی داستان شائع کی ہے جو بے ایمان امریکی نظام انصاف کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ سی این این کے مطابق جان بن کے کیس کو خراب کرنے میں ایک سفید فام متعصب پولیس افسر کا خاص کردار پایا گیا، جس نے 1989ء میں 14 برس کے نوجوان جان بن کو قتل کے ایک مقدمہ میں مہارت سے فٹ کیا اور جعلی تفتیش اور جھوٹی گواہی پیش کرکے اس کو پہلے کیس میں بند کرایا اور پھر عدالت میں ایسی مقدمہ بازی کا ماحول پیدا کردیا کہ سفید فام جیوری پر مشتمل امریکی عدالت نے اس نابالغ نوجوان کو قاتل تسلیم کرکے 27 سال قید کی سزا سنا دی۔ اگرچہ کہ دو ماہ قبل جان بن رہا ہوچکا ہے، لیکن اس کی زندگی کے قیمتی 27 برس چھیننے والے متعصب پولیس افسران، نسل پرست تفتیشی افسر اور بے ایمان پراسکیوٹرز سمیت سفید فام جیوری کیخلاف کوئی اقدام نہیں کیا جاسکا ہے۔ اپریل2018ء میں امریکی تجزیہ نگار اور رپورٹر جوزف نیف نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ نارتھ کیرولینا کی ریاستی حکومت نے 30 سال تک جرم بے گناہی کی پاداش میں جیل کاٹنے والے ہنری میک کولم کو ساڑھے سات لاکھ ڈالرز ادائیگی کا حکم دیا ہے اور اس سے تیس سال کے ضیاع پر معافی بھی طلب کی ہے۔ ہنری کو ایک شہری کے قتل کے جھوٹے الزام میں قید رکھا گیا تھا۔ بعد ازاں اس کی سزائے موت کیلئے نیا دعویٰ بھی دائرکیا گیا۔ لیکن ہنری کے وکیل نے نئی تفتیش کے درخواست منظور کروا کر اس کو بے گناہ ثابت کیا۔ نیو یارک ٹائمز کیلئے کام کرنے والے تحقیقی صحافی، نیراج چوکسی نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں متعصب و نسل پرست پولیس، پراسکیوٹرز اور تفتیشی افسران کی جانب سے سیاہ فام باشندوں کو جھوٹے مقدمات میں فٹ کیا جانا معمول کی پریکٹس ہے۔ گزشتہ 30 سال میں جھوٹے مقدمات بناکر جیلوں میں ٹھونس دیئے جانے والے بے گناہ افراد کی تعداد 2,000 سے زیادہ ہے، جن کیخلاف الزامات ان کو سزا دیئے جانے کے کئی کئی سال بعد دوبارہ سنوائی میں سو فیصد غلط ثابت ہوئے ہیں اور ان کو بیگناہ قرار دے دیا گیا ہے۔ لیکن حکومت نے ان کی زندگیاں برباد کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ کیونکہ ایسے بدمعاش افسران اور پراسکیوٹرز سفید فام ہیں۔ نیو یارک ٹائمز سمیت امریکی میڈیا کی غالب اکثریت کا ماننا ہے کہ سفید فام امریکی پولیس کی جانب سے کسی بھی علاقے میں خواتین یا لڑکیوں کے ساتھ زیادتیوں کی رپورٹ پر بلا دھڑک سیاہ فام نوجوانوں کو ذمہ دار ٹھہرادیا جاتا ہے اور سرچ آپریشن کے دوران اس وقت علاقے میں موجود سیاہ فام نوجوانوں کو بلا دریغ گرفتار کرلیا جاتاہے۔ بعد ازاں قانون و انصاف کے تقاضے پورا کئے بغیر ان نوجوانوں کو مجرم قرار دیکر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ان کیخلاف بوگس مقدمات بناکر جھوٹے گواہ تک پیش کردیئے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں سیاہ فام نوجوانوں کو جرم بے گناہی میں سزائیں ہوجاتی ہیں۔ جرمن نیوز چینل، واکس نیوز نے بھی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ 1989ء سے 2017ء کے دوران دو ہزار سے زیادہ کیسوں میں سے قتل کے 50 فیصد کیسوں میں براہ راست سیاہ فام نوجوانوں کو قاتل قرار دلوایا گیا۔ 36 فیصد رنگدار (اسپینی، ایشیائی اور میکسیکو والے) مجرم ٹھہرائے گئے اور صرف 12 فیصد ’’بے گناہ مجرم‘‘ سفید فام تھے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More