سرفروش

0

عباس ثاقب
کچھ ہی دیر بعد میں سچن بھنڈاری کی نشست گاہ میں اس کے سامنے موجود تھا۔ اس نے مجھے عجیب بیزار سی نظروں سے دیکھ کر ناراضی بھرے لہجے میں کہا۔ ’’میں اس اشبھ (منحوس) گھڑی پر دھتکار کرتا ہوں، جب تم میرے جیون میں گھسے تھے۔ میں اپنی ہی نظروں میں گر گیا ہوں‘‘۔
جانے کیوں مجھے اس کی بات سن کر غصہ آگیا۔ ’’اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو مسٹر سچن۔ تم میری وجہ سے نہیں، بلکہ اپنے گندے کرتوتوں کے نتیجے میں ذلیل ہو رہے ہو۔ تمہیں تو میرا آبھاری (احسان مند) ہونا چاہیے کہ بربادی کے کھڈے میں گرنے سے پہلے تمہیں روک لیا۔ آج نہیں تو کل تمہاری پتنی اور افسروں پر ان تمام نیچ حرکتوںکا پول کھل ہی جاتا۔ پھر تم کہیں کے نہ رہتے‘‘۔
مجھے پتا تھا کہ میرے دلائل کتنے بھی ٹھوس ہوں، وہ اپنی شکل کو نہیں، بلکہ آئینے ہی کو داغ دار کہے گا۔ چنانچہ میں اپنے مقصد پر آگیا۔ ’’کتنی فائلیں ساتھ لائے ہو؟‘‘۔
اس نے بدستور پھولے ہوئے منہ کے ساتھ کہا۔ ’’پورا بنڈل۔ جیون داؤ پر لگاکر ساری لے آیا ہوں‘‘۔
میں نے محض احتیاطاً پوچھا۔ ’’تمہیں یقین ہے کہ تمہاری یہ کارروائی کسی کی نظروں میں نہیں آئی؟‘‘۔
اس نے تنک کر کہا۔ ’’بالکوں جیسی بات کیوں کرتے ہو؟ اگر کوئی مجھے دیکھ لیتا تو کیا اس وقت یہاں بیٹھا ہوتا؟‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’کہاں ہیں وہ؟‘‘۔
اس نے آنکھ سے اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’میرے بیڈ روم میں۔ کل دن کے اجالے میں کام پورا کروں گا‘‘۔میں نے گرم جوشی سے اس کے شانے پر تھپکی دی۔ ’’شاباش۔ میں تو خوامخواہ تمہیں کائیر (ڈرپوک) سمجھ رہا تھا۔ تم تو بڑے دلیر اور نڈر نکلے۔ اس بہادری پر تم اسپیشل انعام کے مستحق ہو۔ یہ لو، مزے کرو!‘‘۔
اتنا کہہ کر میں نے کپڑے میں لپٹی ہوئی بیش قیمت شراب کی بوتل اس کے سامنے میز پر رکھ دی۔ شراب پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور بے ساختہ مسکراہٹ اس کے لبوں پر لہرائی۔ ’’اوئے ہوئے۔ یہ تو امریکی دارو ہے‘‘۔
میں نے ہلکے سے طنز کے ساتھ کہا۔ ’’صرف امریکی دارو نہیں، بہت اعلیٰ درجے کی اور مہنگی دارو! بہت ڈھونڈ کر لایا ہوں تمہارے لیے‘‘۔
اس نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’اور اگر میں آج یہ فائلیں لے کر نہ آتا تو؟‘‘۔
میں نے بلا ترد کہا۔ ’’تو یہی بوتل میں تمہارے سر پر پھوڑ دیتا!‘‘۔
مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں میری یہ بات اسے بھڑکا نہ دے، لیکن اس وقت وہ اس شراب کے سرور میں گم ہونے کے تصور سے اتنا مسرور و مسحور تھا کہ اس نے میری بات میں پوشیدہ توہین پر توجہ ہی نہ دی۔ میں نے کہا۔ ’’اس طرح دیکھ دیکھ کر رال ٹپکانے کے بجائے، بہتر ہے کہ ایک آدھ گلاس چڑھا ہی لو۔ لیکن میرے سے کباب تکوں کی فرمائش نہ کرنا۔ میرا ادھر ادھر دھکے کھانے کا موڈ نہیں ہے‘‘۔
اس نے جواب دیا۔ ’’اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس نمکین سامگری (اشیا) موجود ہے، کام چل جائے گا۔ اچھا یہ بتاؤ، ایک آدھ گلاس تمہارے لیے بھی بنادوں؟‘‘۔
میں نے ہلکا سا قہقہہ لاکر کہا۔ ’’اسے اپنا انعام سمجھ کر موج کرو۔ میں تمہیں دیکھ کر ہی دل خوش کرلوںگا۔ مجھے جس نشے کی لت ہے، وہ تمہاری سوچ سے بھی باہر ہے‘‘۔
اس نے میری بات کا کچھ اور ہی مطلب لیا اور خبیثانہ انداز میں دائیں آنکھ دباکر کہا۔ ’’یار تم کہو تو سہی، ایک فون پر ایسی چھمک چھلو یہاں آکر بیٹھی ہوگی کہ دل خوش ہوجائے گا‘‘۔
اس کی بات سن کر میں جھینپ سا گیا۔ میں نے اپنی کیفیت چھپاتے ہوئے بات پلٹتے ہوئے کہا۔ ’’دھنے واد، اچھا یہ بتاؤ کموڈور نیل کنٹھ کے دلّی جانے کی کیا اطلاع ہے؟‘‘۔
اس نے شانے اچکائے۔ ’’کچھ جانکاری نہیں ہے ابھی۔ ہو سکتا ہے کئی دن لگ جائیں۔ چنتا نہ کرو، اوسر (موقع) ملتے ہی میں نیل کنٹھ جی کے دفتر جاکر تمہارا کام نمٹادوں گا‘‘۔
اس نے میری توقع اور خواہش کے عین مطابق بیش قیمت امریکی شراب سے ’’مستفید‘‘ ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ اس نے اپنے کچن میں شاید سوڈے کی بوتلوں کا وافر اسٹاک رکھا ہوا تھا۔ جبکہ موسم ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے برف کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس نے پہلا جام چند ہی گھونٹ میں چڑھا لیا۔ البتہ دوسرا جام مزا لیتے ہوتے ہوئے چسکیوں کے ساتھ ختم کیا۔وہ پینے کے ساتھ ساتھ شراب کے ذائقے اور تیزی کی تعریف بھی کرتا جا رہا تھا۔ تیسرا جام بھرکر سامنے رکھنے تک اس پر سرور کا غلبہ نمایاں نظر آنے لگا۔ جام ختم ہوتے ہوتے وہ باقاعدہ بہکنے لگا۔ پہلے وہ اپنی بیوی کی سرکشی کا ذکر کر کے گالیاں بکنے لگا اور اس سے انتقام لینے کے ایک ہتھ کنڈے کے طور پر مختلف عورتوں سے اپنے ناجائز تعلقات کی ڈینگیں مارنے لگا۔ اس نے فخر کا اظہار کیا کہ وہ اپنے سسرال میں آرتی دیوی کی سگی چچا زاد بہن سپنا کے ساتھ بھی رنگ رلیاں منا چکا ہے۔ پھر وہ اپنے سسر کی کنجوسی پر اسے غائبانہ لعنت ملامت کرنے لگا۔
پھر وہ بھگوان سے گڑگڑاتے ہوئے ہوئے پرارتھنا (دعا) کرنے لگا کہ اس کے سسر کا جلد از جلد دیہانت ہوجائے، تاکہ وہ اس کی دولت پر قابض ہوکر عیاشی کر سکے۔میں اس کی بکواس پر غور کیے بغیر محض اس کی ہذیانی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ لیکن پھر جب وہ اپنے باس کموڈور نیل کنٹھ کو مغلظات سے نوازنے لگا تو میں چونکا۔ وہ ساتھ ساتھ شکایت کر رہا تھا کہ نیل کنٹھ اس کی کارکردگی سے سخت نالاں ہے اور بات بے بات اسے لتاڑتا رہتا ہے۔ اس نے ناقص کارکردگی کو جواز بناکر اس کی ترقی بھی روک رکھی ہے۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More