25کروڑ وصولی کے باوجود گلشن غازی میں کے الیکٹرک ٹھیکیداروں کا راج

0

کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) گلشن غازی میں کے الیکٹرک نے متوازی نظام کے ذریعے 25 کروڑ وصول کرنے کے باوجود قانونی کنکشن فراہم نہیں کیا ۔علاقے میں 2008 سے ٹھیکیداروں کا راج چل رہا ہے اور ٹھیکیداری نظام کے ذریعے بجلی فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کیا ،جو آج تک جاری ہے ۔پی ایم ٹی تاروں اور لائنوں کے لئے مکینوں سے فی کس 12 ہزار روپے وصول کئے گئے ۔ تفصیلات کے مطابق کے الیکٹرک بلدیہ ٹاؤن گلشن غازی میں گزشتہ 10 سال سے غیر قانونی طور پر ٹھیکیداری نظام کے تحت بجلی فراہم کر رہی ہے ۔اس دوران کے الیکٹرک نے ٹھیکیداروں کے ذریعے گزشتہ 10 برسوں کے دوران ایک ہزار سے زائد مکانات سے 25 کروڑ سے زائد رقم وصول کی۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ 2008 تک بلدیہ ٹاؤن کے مذکورہ علاقے گلشن غازی میں 300 سے زائد مکانات تھے ۔مکینوں کی جانب سے کے الیکٹرک کو بجلی فراہمی کے لئے متعدد بار درخواست جمع کروائی گئی، تاہم کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی اقدامات نہ کئے گئے ۔بعد ازاں مکینوں نے مجبوراً مدینہ کالونی کے لئے نصب پی ایم ٹی سے کنڈا کنکشن حاصل کرلیا ۔مذکورہ کنڈا کنکشن اے این پی کے مقامی ذمہ دار حضرت ریاض کی جانب سے فراہم کیا گیا اور کنڈا لینے والے مکینوں سے ہر ماہ فی گھر 300 روپے کے حساب سے وصولی کی جاتی رہی ۔کنڈا کنکشن کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ مکین اپنے گھروں سے کنڈے کا تار مذکورہ پی ایم ٹی تک لاتے جہاں سے انہیں کنڈا فراہم کر دیا جاتا جبکہ مکینوں سے کنڈے کے بل کی مد میں وصول کی جانے والی رقم کا ایک حصہ بلدیہ ٹاؤن میں کے الیکٹرک ذمہ داران تک پہنچایا جاتا ،جس کے باعث کے الیکٹرک کی جانب سے علاقے کی پی ایم ٹی پر لگے کنڈوں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ کے الیکٹرک ذرائع نے بتایا کہ کنڈے سے ہونے والے نقصان کو بجلی بندش اور قانونی طریقے سے بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو اضافی بلنگ کے ذریعے پورا کیا جاتا رہا ۔ 2008 میں مقامی افراد کے احتجاج اور قانونی کنکشن فراہم کرنے کے مطالبے پر کے الیکٹرک نے مکینوں کو بجلی فراہم کرنے کے لئے اقدامات کرنے کے بجائے علاقے میں متوازی نظام قائم کیا اور ٹھیکیدار کے ذریعے علاقے میں بجلی فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ اس حوالے سے متحدہ کے ذمہ دار سید باچا کے بھائی امیر باچا نے کے الیکٹرک حکام سے مل کر اباسین الیکٹرک انجینئرنگ کمپنی کے نام سے نجی الیکٹرک کمپنی بنائی اور مکینوں سے پی ایم ٹی ، میٹر اور تاروں کی مد میں فی گھر 12 ہزار روپے تک وصول کئے۔ذرائع کے مطابق رقم وصولی کے لئے گلشن غازی بلاک ڈی ،یوسی 33 میں واقع دکان کو مرکز بنایا گیا جہاں ایک پرچون کی دکان تھی اور اسی دکان میں نئے کنکشن کی مد میں رقم وصول کی جاتی رہی۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ دکان عدنان نامی شخص کی تھی جو نجی الیکٹرک کمپنی میں شیئر ہولڈر تھا اور بعد ازاں مذکورہ دکان کو ہی کمپنی کا دفتر بھی بنا دیا گیا تھا۔ ذرائع نے‘‘ امت ’’کو بتایا کہ اس سلسلے میں پہلے پی ایم ٹی غازی آباد بلاک ڈی میں عید گاہ کے قریب نصب کی گئی جسے کے الیکٹرک کی جانب سے 11 ہزار وولٹ کی ایچ ٹی لائن سے منسلک کیا گیا ۔ ذرائع کے مطابق 2008 سے 2012 تک امیر باچا نے کے الیکٹرک کے ساتھ مل کر گلشن غازی میں نجی الیکٹرک کمپنی کا نظام چلایاجس کے بعد سے تا حال مذکورہ غیر قانونی کمپنی کا نظام حضرت ریاض ، ندیم ، رحیم شاہ اور ڈاکٹر مراد چلا رہے ہیں ۔معلوم ہوا ہے کہ ٹھیکیداری نظام کے ذریعے ابتدا میں مکینوں کو فی یونٹ 6 روپے کے حساب سے بجلی فراہم کی جاتی تھی، بعد ازاں پر یونٹ رقم میں اضافہ کیا گیا اور ساڑھے 8 روپے کے حساب سے فی یونٹ وصولی کا سلسلہ شروع ہوا جو تا حال جاری ہے ۔ مذکورہ علاقوں میں بلنگ کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ کمپنی کی جانب سے ہر مکان پر نصب میٹر کو ، میٹر نمبر اور کنزیومر نمبر بھی الاٹ کیا گیا ہے جب کہ ٹھیکیدار کمپنی نے ماہوار تنخواہوں پر ملازمین رکھے ہوئے ہیں، پرائیویٹ کمپنی کے یہ ملازمین ہر ماہ گھروں پر لگے میٹرز سے ریڈنگ حاصل کرنے کے بعد بل تیار کرتے ہیں اور ان بلز کے حساب سے مکینوں کو ہر ماہ ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔جبکہ بلوں کی ادائیگی کے لئے غیر قانونی کمپنی کا دفتر ہی بلنگ آفس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں شہری اپنا ماہانہ بل ادا کرتے ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ ابتدا میں ٹھیکیداری نظام کے تحت ڈھائی سو سے تین سو مکانات کو بجلی فراہم کی جاتی تھی تاہم گزشتہ 10 برسوں کے دوران مکانات میں اضافے کے ساتھ ہی ٹھیکیدار کمپنی کا نیٹ ورک بھی وسیع ہوتا گیا اور اس وقت ایک ہزار سے مکانات کو مذکورہ نجی الیکٹرک کمپنی ساڑھے 8 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جا رہی ہے، جبکہ کے الیکٹرک علاقے میں موجود پی ایم ٹی پر نصب میٹر کی ریڈنگ کے ذریعے ٹھیکیدار سے رقم وصول کرتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More