سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے بیٹوں سے ملاقات کے خواہش مند

0

امت رپورٹ
نواز شریف کی خواہش ہے کہ عارضی رہائی کے دوران لندن میں مقیم حسن اور حسین نواز سے ان کی ملاقات ہو جائے، تاکہ وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ اس غم کو بانٹ سکیں، بیگم کلثوم نواز کی رحلت کے بعد جس میں سارا خاندان مبتلا ہے۔ تاہم ای سی ایل میں ان کے نام کی موجودگی اس خواہش میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ واضح رہے کہ حسن اور حسین نواز کو عدالت نے مفرور قرار دے رکھا ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنی والدہ بیگم کلثوم نواز کی تدفین میں شرکت کے لئے پاکستان نہیں آ سکے تھے۔
لیگی ذرائع کے مطابق چونکہ میاں صاحب ابھی تازہ تازہ جیل سے آئے ہیں اور اہلیہ کا غم بھی ابھی تازہ ہے، لہٰذا فی الحال وہ تمام پارٹی امور سے الگ تھلگ ہوکر آرام کر رہے ہیں۔ کچھ یہی صورت حال مریم نواز کی ہے۔ جیسے ہی وہ اس کیفیت سے باہر آئیں گے تو پارٹی کے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں سینئر رہنمائوں کے ساتھ مشاورت کریں گے۔ تاہم لیگی ذرائع کے بقول نواز شریف نے اپنا اور مریم کا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لئے پارٹی وکلا سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے اور آنے والے دنوں میں یہ خارج از امکان نہیں کہ اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کر لیا جائے۔ موجودہ حکومت نے اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس میں نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دی تھی۔ بعد ازاں تینوں کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق شریف خاندان کی جانب سے اسی نوعیت کی ممکنہ درخواست کے پیش نظر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے یہ بیان جاری کیا کہ نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایک لیگی عہدیدار کے مطابق اگرچہ عارضی رہائی کے عرصے میں نواز شریف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے، نہ ہی ضمنی الیکشن کی مہم چلا سکتے ہیں۔ تاہم بند کمروں میں پارٹی رہنمائوں کے ساتھ مشاورت کے حوالے سے ان پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ لیگی عہدیدار کے بقول میاں صاحب ابھی تک دکھ کی اس کیفیت سے باہر نہیں نکل سکے ہیں کہ وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کے آخری وقت پر ان کے پاس نہیں تھے۔ لہٰذا سینئر رہنما فی الحال ان سے پارٹی امور پر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ چند روز بعد جب غم کی کیفیت سے میاں صاحب قدرے باہر نکل آئیں گے تو ان کی غیر موجودگی کے دوران پارٹی کو جو نقصان پہنچا، اس کے ازالے کے لئے اہم مشاورت کی جائے گی۔ لیگی عہدیدار کے مطابق اگرچہ اڈیالہ جیل میں بھی پارٹی رہنمائوں کے ساتھ مشاورت ہوتی رہتی تھی، لیکن وہاں کھل کر بات کرنا مشکل ہوتا تھا، کیونکہ عملے کا کوئی نہ کوئی رکن ملاقات کے وقت سر پر کھڑا ہوتا۔ بعض اوقات بات سرگوشیوں میں کرنی پڑتی تھی۔ لیگی عہدیدار نے بتایا کہ نواز شریف کی قید کے دوران شہباز شریف نے جس طرح پارٹی کو چلایا، اس سے متعدد سینئر لیگی رہنما مطمئن نہیں۔ اڈیالہ جیل میں ملاقات کے موقع پر بھی یہ رہنما دبے لفظوں میں یہ شکوہ نواز شریف سے کرتے رہے۔ تاہم اب انہوں نے نواز شریف کے سامنے اپنا موقف کھل کر بیان کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے بھی تصدیق کی ہے کہ نون لیگ کے کئی سینئر رہنما بطور پارٹی صدر شہباز شریف کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مریم نواز کے قریب ہیں۔ اس پارٹی رہنما کے بقول وہ اس وقت حیران رہ گئے جب چند روز پہلے نون لیگ کے کئی رہنمائوں نے شہباز شریف کے خلاف اپنے جذبات کا کھل کر ان سے اظہار کیا۔ اس سے انہیں اندازہ ہوا کہ شہباز شریف کے خلاف ان رہنمائوں کا غصہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ وہ اب ان معاملات کو پارٹی کے اندر ڈسکس کرنے کے ساتھ ساتھ ان جیسے لوگوں سے بھی شیئر کر رہے ہیں، جن کا نون لیگ سے کوئی تعلق نہیں۔ مذکورہ سیاسی رہنما کے بقول اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطل کئے جانے کے فیصلے سے ایک روز قبل جب اس اپیل کی سماعت جاری تھی تو وہ بھی اپنے ایک کیس کے سلسلے میں ہائی کورٹ پہنچے تھے۔ متوقع فیصلہ سننے کے لئے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سینئر رہنما سردار مہتاب عباسی، شاہد خاقان عباسی، طارق فضل چوہدری، جاوید لطیف، پرویز رشید، انجم عقیل، سابق گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، مریم اورنگزیب، جاوید ہاشمی اور دیگر وہاں موجود تھے۔ اس وقت شہباز شریف کچھ فاصلے پر احاطہ عدالت کے ایک کونے میں وکلا سے گفت و شنید میں مصروف تھے۔ ایسے میں وہاں موجود سینئر لیگی عہدیداران میں سے متعدد نے ان سے شہباز شریف کے طریقہ سیاست پر بات شروع کر دی۔ سیاسی رہنما کے بقول اپنے پارٹی صدر پر ان رہنمائوں کی تنقید اس قدر شدید تھی کہ اسے احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ حتیٰ کہ بعض لیگی رہنما کچھ فاصلے پر موجود شہباز شریف کی طرف باقاعدہ اشارہ کر کے یہ کہہ رہے تھے کہ ’’اس شخص نے میاں صاحب کی غیر موجودگی میں ان کے بیانیہ اور پارٹی کو سخت نقصان پہنچایا ہے‘‘۔ اصرار کے باوجود مذکورہ سیاسی رہنما نے اگرچہ ان لیگی لیڈران کا نام بتانے سے انکار کیا، جو ان سے اپنے پارٹی لیڈر کے خلاف شکوے شکایت کر رہے تھے۔ تاہم یہ ضرور کہا کہ عدالت میں موجود لیگی رہنمائوں میں سے بیشتر شہباز شریف مخالف خیالات کے حامل تھے۔ اس موقع پر ایک سینئر لیگی رہنما نے کہا کہ مرحومہ بیگم کلثوم نواز نے سڑکوں پر نکل کر کردار ادا کیا تھا تو صورت حال تبدیل ہوئی تھی۔ لیکن یہ شخص (شہباز شریف) اس پر قطعی تیار نہیں۔ پارٹی نہیں چلا سکتا۔ اور یہ کہ میاں صاحب کے باہر آ جانے کے بعد وہ اس سلسلے میں اپنے تحفظات ان کے سامنے رکھیں گے۔ اس موقع پر بعض لیگی رہنمائوں نے یہاں تک کہا کہ اگر نواز شریف عارضی رہائی کے بعد دوبارہ جیل چلے جاتے ہیں تو شہباز شریف کو بائی پاس کر کے تحریک چلائی جائے گی۔
ادھر نواز شریف سے قریب ایک اور پارٹی عہدیدار نے بتایا کہ محرم کے بعد تحریک چلانے کی ہدایت نواز شریف اڈیالہ جیل میں اپنی قید کے دوران دے چکے تھے۔ تاہم بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے بعد تبدیل ہونے والے سنیاریو کے پیش نظر اس معاملے پر نئے سرے سے مشاورت کی جائے گی۔ اب نومبر کے وسط تک بیگم کلثوم نواز کا چہلم گزرنے کا انتظار بھی کیا جائے گا۔ اس سے چند روز پہلے محرم الحرام کا مہینہ اختتام پذیر ہو چکا ہو گا۔
لیگی عہدیدار نے بتایا کہ پارٹی وکلا نے سزا معطلی کے بعد کے منظر نامے سے میاں صاحب کو آگاہ کر دیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ نیب کی کمزور کارکردگی کے سبب سزا معطلی سے متعلق اپیل کا فیصلہ تو ان کے حق میں آ گیا ہے، تاہم سزا کالعدم قرار دینے سے متعلق بنیادی اپیل کی سماعت کے لئے نیب زیادہ تیاری کے ساتھ آئے گا۔ لہٰذا نون لیگی وکلا کو بھی زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ عہدیدار کے بقول میاں صاحب کو باور کرایا گیا ہے کہ سزا معطلی کے خلاف نیب اگر سپریم کورٹ جاتا بھی ہے تو اس کا امکان کم ہے کہ عدالت عظمیٰ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو دوبارہ جیل بھیج دے۔
ہائی کورٹ میں شریف خاندان کی طرف سے دو نوعیت کی اپیلیں کی گئی تھیں۔ ایک میں استدعا کی گئی ہے کہ سزا دینے سے متعلق احتساب عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کو بری کیا جائے۔ دوسری اپیل میں کہا گیا تھا کہ جب تک سزا کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی اپیل کا فیصلہ نہیں آ جاتا، اسلام آباد ہائی کورٹ اس سزا کو معطل کر دے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوسری اپیل پر سماعت کر کے سزا معطل کر دی۔ اب سزا کالعدم دینے سے متعلق اپیل سنی جائے گی۔ اس میں بھی اگر فیصلہ شریف فیملی کے حق میں آتا ہے تو نیب یہ معاملہ سپریم کورٹ لے جائے گا اور فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں شریف فیملی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔ یوں حتمی اور فائنل فیصلہ وہی ہو گا، جو سپریم کورٹ کرے گی۔ دوسری جانب العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ بھی قریب ہے۔ اس طرح شریف فیملی کی آزمائش فوری ختم ہونے کے امکانات روشن نہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More