سرفروش

0

عباس ثاقب
میں نے وقت گزاری کے لیے ابن صفی کی عمران سیریز کا ناول ’’ہیروں کا فریب‘‘ اٹھا لیا۔ درحقیقت میں اپنا دماغ گزشتہ رات کے واقعات اور حاصل ہونے والی معلومات سے ہٹانا چاہتا تھا۔ اسی طرح مجھے اسلم کا انتظار بھی مضطرب کر رہا تھا۔ میں علی عمران کی حماقتوں سے مزین اس ناول کے اٹھائیسویں صفحے پر ہی پہنچا تھا کہ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ میں جلدی سے دروازے پر پہنچا۔ میری توقع کے عین مطابق وہ اسلم ہی تھا۔ اس کے چہرے پر خوش گوار مسکراہٹ تھی۔ میں اسے لے کر اپنی چھوٹی سی خواب گاہ میں آگیا۔
اسلم نے چارپائی پر بیٹھتے ہی کہا۔ ’’چھوٹے بھیا تیار ہوجاؤ۔ افتخار صاحب نے ملاقات کے لیے بلایا ہے‘‘۔
میں نے خوش ہوکر کہا۔ ’’ابھی؟‘‘۔
اسلم نے کہا۔ ’’یہی سمجھ لو۔ ہم کچھ ہی دیر میں نکل رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے ملاقات کا جو مقام چنا ہے، وہاں تک پہنچنے میں ہمیں کئی گھنٹے لگ جائیں گے۔ ہم دونوں ایک ہی گاڑی میں وہاں جائیں گے‘‘۔
میں نے سوالیہ نظروں سے اسلم کو دیکھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’ماتھیرن کا نام سنا ہے کبھی؟ ماتھیرن یعنی پہاڑوں کی پیشانی والا جنگل؟‘‘۔
میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ جگہ کہاں ہے اور وہاں کیا خاص بات ہے کہ افتخار صاحب نے مجھے وہاں اتنی دور ملاقات کے لیے بلایا ہے؟‘‘۔
اسلم نے کہا۔ ’’یہ بومبے سے کوئی پچپن ساٹھ میل کے فاصلے پر واقع چھوٹا سا پہاڑی تفریحی مقام ہے، جہاں ایک جھیل اور کئی تاریخی مقامات ہیں۔ افتخار صاحب کو یہ جگہ بہت پسند ہے اور اکثر یہاں جاتے رہتے ہیں۔ آپ سے ہنگامی ملاقات کے لیے اس جگہ کے انتخاب کی سب سے پہلی وجہ تو یہی ہے کہ یہاں نگرانی سے محفوظ رہ کر اطمینان سے بات کی جا سکتی ہے۔ دراصل اس شہر میں گاڑیاں چلانے پر ممانعت ہے اور گاڑی کے ذریعے یہاں تک پہنچنے والوں کو گاڑی خاصا پہلے ایک مقام ڈھنڈی پوائنٹ پر چھوڑ دیتی ہے۔ آگے کم از کم آدھے گھنٹے کا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے‘‘۔
میں نے جلدی سے کہا۔ ’’سمجھ گیا۔ ان پر نظر رکھنے والا ڈرائیور گاڑی کے ساتھ رہ جائے گا اور وہ تنہا اس ہل اسٹیشن، کیا نام بتایا؟… ہاں، ماتھیرن پہنچ جائیں گے‘‘۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’لیکن آپ کو پیدل وہاں پہنچنے کی ضرورت نہیں۔ میں آپ کو ریلوے اسٹیشن لے جا رہا ہوں، جہاں سے آپ کو نیرل قصبے کے لیے ٹرین مل جائے گی۔ وہاں پہنچتے ہی یا کچھ دیر بعد آپ ماتھیرن جانے والی چھوٹے گیج کی ٹرین میں بیٹھیں گے، جو تیرہ میل کا پہاڑی سفر طے کر کے آپ کو ماتھیرن ریلوے اسٹیشن پر اتار دے گی۔ گرمیوں میں اس جگہ کافی چہل پہل ہوتی ہے۔ آج بھی ہفتہ وار چھٹی کی وجہ سے کچھ لوگ آگئے ہوں گے۔ ورنہ سردیوں میں تو لگ بھگ سناٹا ہی ہوتا ہے‘‘۔
میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’افتخار صاحب سے میری ملاقات کہاں ہوگی؟‘‘۔
اسلم نے کہا۔ ’’وہ تمہیں ماتھیرن ریلوے اسٹیشن پر دکھائی دے جائیں گے۔ تاہم آپ دونوں کو الگ الگ گھوڑا گاڑیاں یا ہتھ رکشا کرائے پر لے کر شارلٹ جھیل پہنچنا ہوگا، جہاں آپ دونوں بے فکر ہوکر آپس میں بات کر سکیں گے‘‘۔
کچھ ہی دیر بعد ہم دونوں ریلوے اسٹیشن کی طرف جا رہے تھے۔ اسلم نے راستے میں تمام تفصیلات کا اعادہ کیا۔ اسلم نے مجھے ریل کا ٹکٹ لاکر دیا اور لگ بھگ نصف گھنٹے بعد میں مقامی قصبوں کے درمیان سفر کرنے والی ایک قدیم طرز کی ٹرین میں نیرل ریلوے اسٹیشن کی طرف رواں دواں تھا۔ مجھے اب ہندوستان میں پاکستانی مفاد کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ساتھیوں کی مشکلات کا زیادہ بہتر انداز میں اندازہ ہو رہا تھا۔ افتخار صاحب صرف مجھ سے نگرانی سے بچ کر ملاقات کے لیے اتنی سردی میں اس ویرانے میں دھکے کھانے جارہے تھے۔
ٹرین نے ڈھائی تین گھنٹے میں مجھے نیرل ریلوے اسٹیشن پر پہنچا دیا۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، جہاں شاید صرف سیاحتی موسم میں چہل پہل رہتی ہوگی۔ مجھے لگا کہ شاید ہم سے غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ وہ چھوٹے گیج والی ٹرین سیاحوں کی غیر موجودگی میں ماتھیرن اور نیرل کے درمیان کیوں چکر لگاتی ہوگی، جبکہ اسلم کے مطابق وہ ایک غیر سرکاری ریلوے سروس تھی۔ تاہم ریلوے اسٹیشن کے ٹائم ٹیبل کا جائزہ لینے سے پتا چلا کہ گرمیوں میں دونوں مقامات کے درمیان دن میں کئی چکر لگانے والی لائٹ ریل اکتوبر کے مہینے سے مارچ کی آخری تاریخ تک دن میں ایک اور اتوار کے دن دو چکر تک محدود ہو چکی تھی۔
آج اتوار تھا اور دوپہر والی ٹرین کی روانگی میں زیادہ دیر نہیں تھی۔ میں نے ڈھائی روپے کا ٹکٹ خریدا اور ٹرین کے بڑی بڑی کھڑکیوں والے ڈبے میں جا بیٹھا۔ وہاں کئی بچوں والی ایک مراٹھا فیملی اور ایک نوجوان جوڑا پہلے سے موجود تھا۔ میں نے اپنا چہرہ مفلر میں لپیٹا اور لاتعلقی سے کھڑکی سے باہر نظریں دوڑانے لگا۔
خوش قسمتی سے ٹرین وقت پر چل پڑی اور خاصی چڑھائی والے راستے کے باوجود درمیانی رفتار سے آگے بڑھتی رہی۔ موسم کی شدت کی وجہ سے درخت اور سبزہ کہیں مرجھائے اور کہیں بالکل سوکھے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ تاہم بحیثیت مجموعی پٹری کے دونوں طرف کے مناظر قابل دید تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ میں نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے بے چینی سے سفر ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔
خدا خدا کرکے وہ چھوٹی سی ٹرین چڑھائیوں کا سفر طے کر کے سادہ سے لیکن خوب صورت ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوئی۔ میں نے سب سے پہلے ڈبے سے باہر پلیٹ فارم پر قدم رکھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں بمبئی کے مقابلے میں بہت شدید سردی ہے۔ تاہم میں پہلے ہی مناسب اہتمام کر کے آیا تھا۔ ریلوے اسٹیشن سے منسلک چائے خانے میں سگریٹ کے کش لگاتے افتخار صاحب کو ڈھونڈنے میں مجھے کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ تاہم میں نے شناسائی کا اظہار نہیں کیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More