وزیراعظم کے اثاثہ ریکوری یونٹ کو الطاف کے خلاف کارروائی کا چیلنج

0

امت رپورٹ
وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر قائم کئے جانے والے ’’اثاثہ برآمدگی یونٹ‘‘ کو آف شور کمپنیوں کے 100 بڑے مالکان کے اثاثے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجا گیا پیسہ واپس لانے کا ہدف دیا گیا ہے۔ برطانیہ میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ اس یونٹ کے لئے الطاف حسین اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف جاری منی لانڈرنگ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ تاہم حیرت انگیز طو پر یونٹ کا زیادہ فوکس شریف خاندان کے ارکان اور ان کے اثاثوں کی واپسی تو دکھائی دیتا ہے، لیکن غدار وطن الطاف حسین کے بارے میں ایک لفظ ادا نہیں کیا جا رہا۔ الطاف حسین کے خلاف ایف آئی اے نے نہ صرف منی لانڈرنگ کا کیس درج کر رکھا ہے، بلکہ متحدہ سربراہ کو غیر قانونی طریقے سے برطانیہ بھیجے گئے اربوں روپے کی مکمل منی ٹریل اور دیگر ٹھوس دستاویزی شواہد بھی ایف آئی اے کے پاس موجود ہیں۔ جبکہ اس سلسلے میں الطاف حسین کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کئے جا چکے ہیں۔ یہ کیس گزشتہ برس سرفراز مرچنٹ نے درج کرایا تھا۔ بعد ازاں منی لانڈرنگ کے یہ شواہد اور منی ٹریل کی مکمل تفصیل برطانوی حکام کو بھی فراہم کر دی گئی۔ فراہم کردہ دستاویزات میں الطاف حسین اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف درج مقدمے کی کاپی شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق متعلقہ برطانوی حکام کے پاس ایف آئی اے کی جو پندرہ سے بیس درخواستیں زیر التوا ہیں، ان میں سے ایک درخواست الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس دوبارہ کھولنے سے متعلق بھی ہے۔ متحدہ سربراہ کے خلاف برطانیہ میں یہ کیس قریباً دو برس قبل بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم برطانوی قانون کے مطابق کیس میں نئی شہادتیں سامنے آنے پر تحقیقات دوبارہ شروع ہو جاتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کی نئی ٹھوس شہادتوں کی فراہمی کے باوجود برطانوی حکام ان کے خلاف کارروائی شروع کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حالانکہ نواز حکومت کے آخری دور میں اس سلسلے میں بھاری فیس پر ایک غیر ملکی وکیل ٹوبی کیڈمین کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔ موجودہ حکومت کے ایک حکومتی عہدیدار کے بقول دراصل برطانوی حکام کو کارروائی کے لئے جو ضروری دستاویزات درکار تھیں، حکومت پاکستان یہ دستاویزات انہیں فراہم نہیں کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف برطانوی حکام کے پاس ایف آئی اے کی ایک درجن سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں، بلکہ اس نوعیت کی نیب کی جانب سے بھیجی گئی درخواستوں کی تعداد پانچ درجن کے قریب ہے۔ تاہم اب اثاثہ ریکوری یونٹ کے تحت برطانوی حکام کو ضروری دستاویز اور شواہد کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا زیر التوا درخواستوں پر جلد کارروائی آگے بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس کے لئے فرحان جونیجو کے حالیہ کیس کی مثال دی جا رہی ہے۔ فرحان جونیجو پر 2013ء میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ لیکن اہم دستاویز کی عدم فراہمی کے باعث برطانوی حکام کارروائی سے گریزاں تھے۔ اثاثہ ریکوری یونٹ کی جانب سے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کو فرحان جونیجو کی منی لانڈرنگ کی مکمل ٹریل اور دیگر ضروری دستاویزات فراہم کئے جانے کے بعد ان شواہد کی تصدیق کے بعد فرحان جونیجو کے خلاف کارروائی کی گئی۔ تاہم برطانوی حکومت میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی ابھی شروع ہوئی ہے۔ پہلا مرحلہ تفتیش مکمل ہونے کا ہے۔ اس میں دیکھنا ہو گا کہ کتنا عرصہ لگتا ہے اور جب نیشنل کرائم ایجنسی اپنی تحقیقات مکمل کر لے گی تو پھر یہ معاملہ کرائون پراسیکیوشن سروس کے پاس جائے گا اور وہ ہی تعین کرے گا کہ ملزمان پر فرد جرم عائد کی جائے یا نہیں۔ فرد جرم عائد ہونے کی صورت میں عدالتی کارروائی میں بھی عرصہ لگ سکتا ہے۔ ذرائع نے اس سلسلے میں الطاف حسین کے خلاف ہونے والی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا حوالہ بھی دیا، جو برسوں تک جاری رہنے کے بعد 2016ء میں بند کر دی گئی تھی۔ حالانکہ اس حوالے سے اسکاٹ لینڈ یارڈ سمیت دیگر تمام متعلقہ برطانوی تحقیقاتی اداروں نے 6 سے زائد ممالک کا دورہ کیا۔ بے تحاشا پیسہ خرچ کیا اور منی ٹریل کا تمام ریکارڈ بھی حاصل کر لیا تھا۔ تاہم الطاف حسین کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی نوبت نہ آ سکی اور کیس بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ ذرائع کے بقول الطاف حسین کا معاملہ سیاسی رخ اختیار کر گیا تھا اور اس میں برطانوی مفادات انوالو تھے۔ لہٰذا اس کیس کا یہی انجام ہونا تھا۔ تاہم فرحان جونیجو کی گردن چونکہ پتلی ہے، شاید اس کے کیس میں پیش رفت ہو جائے، لیکن یہ بھی بظاہر اتنا آسان دکھائی نہیں دے رہا۔ فرحان جونیجو کے بارے میں اثاثہ ریکوری یونٹ کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ یہ بالکل تیار کیس تھا۔ منی ٹریل اور تمام شواہد موجود تھے، جنہیں برطانوی حکومت کے حوالے کرنا ایک رکاوٹ تھی۔ شواہد فراہم کرتے ہی برطانیہ میں فرحان جونیجو کے خلاف کارروائی ہو گئی۔ اور اب یونٹ اسے اپنی پہلی اہم کامیابی قرار دے رہا ہے۔
لندن میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے نئے شواہد اور منی ٹریل کا مکمل ریکارڈ بھی برطانوی حکام سے شیئر کیا جا چکا ہے۔ یوں یہ کیس بھی تیار ہے۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم کی زیر نگرانی بننے والی ٹاسک فورس کا ’’اثاثہ ریکوری یونٹ‘‘ پہلی کارروائی ریاست مخالف الطاف حسین کے خلاف کراتا۔ الطاف حسین کو بھتہ خوری اور چائنا کٹنگ کے ذریعے اربوں روپے پاکستان سے برطانیہ بھیجے گئے اور اس کے ٹھوس شواہد ایف آئی اے کے پاس موجود ہیں۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ تھا کہ ریاست مخالف الطاف حسین پاکستانی حکام کی پہنچ سے بہت دور جا چکا ہے۔ برطانوی حکام پاکستان کی درخواست پر متحدہ سربراہ کے خلاف کسی صورت کارروائی نہیں کریں گے۔ حتیٰ کہ اس معاملے پر دونوں ممالک کے تعلقات ایک مرحلے پر کشیدہ بھی ہو گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی الطاف حسین کے بجائے آسان ہدف پر ہاتھ ڈالا تاکہ یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ حکومت نے جو وعدے کئے تھے، اقتدار میں آتے ہی اس پر عمل شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے بقول برطانیہ میں الطاف حسین کے خلاف کارروائی شروع کرانا تو دور کی بات ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں الطاف حسین کے ساتھ مقدمہ میں ملوث ایم کیو ایم کے جو رہنما پاکستان میں موجود ہیں، اب تک ان کے خلاف بھی کارروائی شروع نہیں کرائی جا سکی ہے۔
اس سلسلے میں اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ منی لانڈرنگ کیس میں ایم کیو ایم اور اس سے الگ ہونے والے دھڑے پی ایس پی کے رہنما ایف آئی اے سے مکمل تعاون نہیں کر رہے۔ تحقیقات میں عدم تعاون پر نواز دور حکومت کے آخر میں فاروق ستار، ارشد وہرہ، سہیل منصور، ریحان منصور، رئوف صدیقی اور کیف الوریٰ کی گرفتاری کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم سیاسی مصلحتوں کے تحت یہ کارروائی عمل میں نہ آ سکی۔ پھر الیکشن کا مرحلہ آ گیا۔ اب تحریک انصاف کی نئی حکومت آ چکی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں کی گئی ہے۔
منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بھیجی جانے والی رقوم اور ان سے بنائے جانے والے اثاثوں کی واپسی کے لئے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر بنایا جانے والا Assest Recovery Unit (اثاثہ برآمدگی یونٹ) نیب، ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک پاکستان اور ایف بی آر کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ اس کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر ہیں۔ انہیں احتساب سے متعلق وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More