ضمنی الیکشن میں پی پی امیدوار سنگین مقدمات میں ملوث نکلا

0

کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 243 میں ضمنی انتخاب کے امیدواروں کی چھان بین کے عمل نے الیکشن کمیشن کے کردار کو مشکوک بنا دیا ۔پی پی کا امیدوار حاکم علی جسکانی 6 مقدمات میں ملوث نکلا۔حاکم جسکانی قتل اور اغوا کے مقدمات سمیت نیب کے بھی زیر تفتیش ہیں۔پی پی کے نامزد امیدوار پر غیر قانونی ٹول پلازہ چلانے کا بھی الزام ہے ،جبکہ آٹھویں کلاس کی طالبہ کے اغوا اور 12 سالہ بچے کے قتل کیس میں بھی نامزد ملزم ہے۔ ایکسائز کےمعمولی سپاہی سے رشوت اور اثر ورسوخ کی بنا پر آؤٹ آف ٹرن پروموشن کے ذریعے حاکم جسکانی ایکسائز انسپکٹر کی پوسٹ تک پہنچ گیا اور پھر ملازمت چھوڑ کر ٹھیکیداری شروع کر دی۔حاکم علی جسکانی کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف تمام مقدمات خاندانی دشمنی کی بنا پر درج کروائے گئے ،جن میں سے زیادہ تر ختم ہو چکے ہیں ،کچھ میں ضمانت پر ہوں، نیب ، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے میں میرے خلاف کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں ہو رہی۔تفصیلات کے مطابق14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے لئےپی پی کی قیادت نے کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 243 گلشن اقبال کے لئے سنگین مقدمات میں ملوث حاکم علی جسکانی کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے چھان بین کے بعد حاکم علی کے کاغذات نامزدگی درست قرار دیتے ہوئے منظور بھی کر لئے ہیں۔ حاکم علی جسکانی کے خلاف تھانہ اے سیکشن کندھ کوٹ پر 8 دفعات کے تحت ایف آئی آر نمبر 13/137 درج ہے ،جس میں ان کو روپوش ظاہر کیا گیا ہے۔ تھانہ سی سیکشن سکھر پر زیر دفعہ 109،316 اور 322 کے تحت ایف آئی آر نمبر 14/137 درج ہے ،جس میں 12 سالہ نیاز علی کے قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ تھانہ غوث پور پر ان کے خلاف زیر دفعہ 364 اے کے تحت ایف آئی آر نمبر 13/62 درج ہے ،جس میں ان پر ایک بچے بابر ولد شاہنواز میرانی کے اغوا کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ تھانہ ٹنڈو مستی ضلع خیر پور پر زیر دفعہ 324 اور انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ 7/6 کے تحت ایف آئی آر نمبر 16/133 درج ہے ۔ اس مقدمے کی ایف آئی آر میں ان کا نام نہیں ہے البتہ لنک روڈ لاڑکانہ پر ان کے ملازمین پر قائم ٹول پلازہ پر زبردستی ٹول ٹیکس وصول کرنے اور ٹیکس ادا نہ کرنے پر بارات پر فائرنگ کا الزام ہے۔تھانہ اے سیکشن کندہ کوٹ پر زیر دفعہ 149،148،147،452،511 اور 364 کے تحت ایف آئی آر نمبر 17/117 درج ہے ،جس میں ان پر آٹھویں کلاس کی طالبہ شبانہ لاشاری کو مبینہ طور اغواکرنے کا الزام ہے۔ شبانہ لاشاری کے اغوا کے معاملے پر وہ کاروکاری کی زد میں بھی آئے جرگے میں ان پر الزام ثابت ہونے پر بھاری جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے۔ تھانہ سٹی ضلع ملیر کراچی پر ان کے خلاف زیر دفعہ 342 اور 365 کے تحت ایف آئی آر نمبر 17/223 درج ہے۔ ذرائع کے مطابق حاکم علی نیب اور ایف آئی اے کو مختلف معاملات میں مطلوب ہے ۔اس کے باوجود اس کو پی پی نے ٹکٹ جاری کیا اور الیکشن کمیشن نے ان کے کاغذات نامزدگی منظور کئے۔ ٹول پلازہ ٹھیکیدار حاکم علی کے خلاف ان کی زوجہ مسمات حاکم زادی نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو لکھے گئے لیٹر میں ناجائز ٹول ٹیکس کی وصولی کے الزامات عائد کئے تھے ،جس کی تحقیقات کو بعد میں دبا دیا گیا جبکہ حاکم زادی کے ارسال کردہ لیٹر کے جواب میں ڈائریکٹر ایچ آر ڈی نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے جوابی مراسلہ بھی ارسال کیا تھا۔ان کی زوجہ نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ ان کے شوہر حاکم جسکانی نے بچے چھین لئے ہیں اور ان کو گھر سے نکال دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حاکم علی جسکانی نے20سال تک ملیر لنک روڈ پر جعلی ٹول پلازہ چلایا۔ ڈی جی نیب کراچی نے اس کا نوٹس لیا ،جس کی تحقیقات حاکم جسکانی اور دوسروں کے خلاف جاری ہے ،تاہم نیب میں حاکم جسکانی کے خلاف غیر قانونی اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کی بھی تحقیقات جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق حاکم علی 1992میں محکمہ ایکسائز سندھ میں بطور سپاہی بھرتی ہوا اور رشوت اور سفارش کی بنیاد پر آؤٹ آف ٹرن پروموشن حاصل کئے اور غیرقانونی طریقے سے حاصل کی جانے والی دولت سے ٹھیکیداری شروع کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ با اثر ہونے کی بنا پر ٹول پلازہ کا ٹھیکہ ختم ہو جانے کے باوجود وہ چلاتے رہے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 2008 کے بعد سندھ میں پی پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے پی پی کی قیادت سے تعلقات بڑھائے اور بعد میں ضلع جیکب آباد میں ٹھیکیداری شروع کی اور بعد میں ملازمت چھوڑ دی۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر حاکم علی جسکانی نے کہا ہے کہ ان کے خلاف داخل تمام مقدمات خاندانی دشمنی کی بنا پر درج کروائے گئے جن میں سے زیادہ تر ختم ہو چکے ہیں کچھ میں ضمانت پر ہوں نیب اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے میں میرے خلاف کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں ہو رہی اور نہ ہی مجھے طلب کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ میں 1992 میں محکمہ ایکسائز سندھ میں بطور سپاہی بھرتی ہوا اور سینیارٹی کی بنیاد پر ترقی حاصل کی اور 2012 میں استعفیٰ دے دیا تھا مجھ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سندھ میں ٹول پلازہ کے ٹھیکے لیتا ہوں اور این ایچ اے کا سب سے بڑا ٹھیکیدار ہوں میرے خلاف ایک منظم گروہ سازش میں مصروف ہے جس میں میری سابقہ بیوی غیر قانونی معاملات میں ملوث میرے سالے ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل اور ایک وکیل شامل ہے جو میری کروڑوں روپے کی زمین ہتھیانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے 8 بچے ہیں ان کے بھائیوں کا ذاتی کاروبار ہے 2011 میں ان کی اہلیہ بھائیوں کے کہنے پر میرا 32 تولے سونا لیکر فرار ہو گئی تھی، میں نے انہیں نہیں نکالا تھا ان کے فرار ہونے اور سونا لے جانے سے متعلق تھانہ ماری پور میں ایک درخواست بھی جمع کروائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آج بدھ کو بلاول ہاؤس کراچی میں اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں ان الزامات سے متعلق باقاعدہ طور پر جواب دیا جائے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More