خدا نے کوئی چیز بےکار نہیں بنائی

0

حق تعالیٰ جل شانہ نے دنیا میںکوئی چیز بے کار، بے فائدہ پیدا نہیں فرمائی۔ قرآن پاک کی سورۃ البقرہ کی آیت 29 میں فرمایا۔
ترجمہ: خدا وہ ہے جس نے پیدا کیا تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے، سب کا سب۔
غرض دنیا کی ہر چیز نفع بخش ہے، یعنی دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں، جس سے انسان کو کسی نہ کسی حیثیت سے بلاواسطہ فائدہ نہ پہنچا ہو۔ خواہ یہ فائدہ دنیا میں استعمال کرنے کا ہو یا آخرت کیلئے عبرت و نصیحت کرنے ہو۔ بہت سی ایسی چیزیں کہ انسان کو ان سے فائدہ پہنچا ہے مگر اس کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ جو چیزیں انسان کیلئے مضر سمجھی جاتی ہیں، جیسے زہریلی اشیاء زہریلے جانور وٖغیرہ۔ غور کریں تو وہ بھی کسی نہ کسی حیثیت سے انسان کیلئے نفع بخش بھی ہیں، حتیٰ کہ موت بھی اپنے وقت پر نفع بخش ہے۔ ایک حقیر ترین جانور، پاخانے کا کیڑا ہے، جس کے متعلق عام لوگوں کی رائے تو رہنے دیجئے، بقراط جیسا فاضل طبیب بھی ایک عرصہ اس کیڑے کے بے کار، بے فائدہ ہونے کا فتویٰ لگاتا رہا۔ یہاں تک کہ اس حقیر ترین چیز ہی کی بدولت اس حکیم کو بینائی جیسی عظیم دولت و نعمت دوبارہ حاصل ہوگئی۔
واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ بقراط کا ایک ہمعصر معالج آنکھوں کے علاج میں یکتائے زمانہ و بے نظیر تھا۔ وہ حکیم جو، آئی اسپیشلسٹ تھا، ایک خاص سرمہ بنایا کرتا تھا۔ جس کو ایک سلائی لگاتا اس کو دن کے وقت آسمان پر صاف ستارے نظر آجاتے۔ مادر زاد اندھوں کے سوا وہ اندھے جن کی بینائی و روشنی کسی بیماری کی بدولت ضائع ہوگئی ہوتی، بس اس حکیم کی ایک ہی سلائی سے دوبارہ بینا ہو جاتے۔ اس حکیم کو پتہ تھا کہ ہمارا ہمعصر اور بے مثال حکیم بقراط چشمۂ فیض ہے۔ جس سے ہزاروں بندگان خدا روزانہ سیراب ہوتے اور فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ نابینا ہو گیا ہے۔ ضرور وہاں چل کر یہ سرمہ ان کو لگانا چاہئے۔ اس خیال سے وہ حکیم بقراط کے شہر ’’قو‘‘ میں پہنچا۔ اس کے مطب میں جا کر دیکھا تو مخلوق خدا کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ حکیم بقراط محض نبض دیکھ کر تشخیص کرلیتا تھا اور پھر اسی کے مطابق دوا دیتا تھا۔ اس منظر سے اس کے دل میں بقراط کے تجربیاور تبحر علمی کا سکہ بیٹھ گیا۔ مطب سے فارغ ہوتے ہی یہ آنکھوں کا معالج آگے بڑھا۔ علیک سلیک و تعارف کے بعد اپنے آنے کا مقصد بتایا۔ بقراط حکیم نے کہا کہ اگر میں آپ کے سرمہ سے اچھا ہو جاؤں تو تم نسخہ بتادو گے (یعنی یہ سرمہ کن کن چیزوں سے مل کر بنا ہے) اس حکیم نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہرگز نہیں۔ صرف آپ کیلئے ایک سلائی دے دوں گا، اگر دوبارہ مانگو گے تو سمجھ لینا جواب ہے۔ بقراط اپنی خدا داد ذہانت سے سمجھ گیا اور اس کے بخل کا اندازہ کر کے ایک سلائی کی خیر منانے لگا۔ معالج العین نے سلائی کے دونوں سروں پر سرمہ لگا کر کہا: لیجئے یہی آپ کا حصہ ہے۔ بقراط نے سلائی کا ایک سرا آنکھوں میں لگایا، جس سے وہ فوراً بینا ہوگیا۔ آنکھوں میں پوری روشنی آگئی اور دوسرا سرا سرمہ کے اجزاء معلوم کرنے کیلئے اپنی زبان پر رکھ لیا اور اس کے تمام اجزاء بتانے لگا، جوں جوں بقراط بتا رہا تھا، دوسرا حکیم نوٹ کرتا رہا اور ساتھ ہی ان اجزاء کی تصدیق بھی کرتا اور بقراط کی حذاقت و عقلمندی کی داد دیتا رہا۔ اس طرح بقراط نے ایک ایک کر کے تمام اجزاء گن ڈالے، مگر ایک چیز کا پتہ نہ چلتا تھا۔ (یہاں حق جل شانہ نے اسے یہ دکھانا تھا کہ ہر چیز کا ہمہ وقت کامل علم صرف میرے پاس ہی ہے نہ کہ مخلوقات کے پاس) بقراط کو نہایت تردد و فکر ہوا، آخر اس آنکھوں کے حکیم سے التجا کرنے لگا کہ ایک چیز کا پتہ نہیں چلتا۔ برائے مہربانی وہ ایک چیز مجھے بتا دیجئے گا۔ اس حکیم نے کہا وہ آخری چیز جو آپ نہیں بتا سکے، وہ پاخانے کا کیڑا ہے۔ یہ سنتے ہی بقراط حکیم کا خیال پلٹ گیا، جس کو میں ایک مدت العمر اور عرصہ دراز سے حقیر و بے فائدہ سمجھا کرتا تھا۔ حقیقت میں وہی حقیر چیز میرے لئے آب حیات ثابت ہوئی۔ فوراً کہنے لگا کہ اب میں جان گیا ہوں اور مجھے معلوم ہوا کہ خدا نے کوئی چیز بے فائدہ اور بے کار نہیں بنائی۔ (ماخوذ کتاب ’’انگوزہ‘‘ مصنف حکیم محمد اسماعیلؒ امرتسری ص 20 تا 22)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More