اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

0

پشاور/ نوشہرہ (نمائندگان امت) جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور جید عالم دین مولانا سمیع الحق کو ہفتہ کی سہ پہر اکوڑہ خٹک میں والد کے پہلو میں سپردخاک کردیا گیا، جس کے ساتھ ہی کئی عشروں تک خدمت دین، سیاست اور جہاد کے حوالے سے چمکنے والا سورج غروب ہوگیا۔ نماز جنازہ بیٹے حامدالحق نے پڑھائی، جس میں اعلیٰ شخصیات سمیت لاکھوں افراد نے شرکت کی۔خوشحال خان کالج کا اسٹیڈیم اور پورے شہر کی سڑکیں و گلیاں شرکا سے بھرگئیں۔ جی ٹی روڈ پر بھی تاحد نگاہ سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ جنازے کے شرکا تقریباً 7 کلومیٹر کے اراضی پر پھیلے ہوئے تھے۔ اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت پر خیبرپختون میں سرکاری سطح پر ایک روزہ سوگ منایا گیا۔ قومی پرچم سرنگوں اور تعلیمی ادارے بند رہے۔ تفصیلات کے مطابق قاتلانہ حملے میں شہید ہونے والے جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو ہفتے کی سہ پہر جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ان کے والد مولانا عبدالحق کے پہلو میں سپردخاک کردیا گیا۔ شہید کی میت ایمبولینس میں خوشحال خان ڈگری کالج اکوڑہ کے گراؤنڈ میں لائی گئی۔جنازے کے وقت مولانا شہید کے بیٹے مولانا حامد الحق نے اپنے چچا مولانا انوار الحق سے جنازہ پڑھانے کا کہا، تو انہوں مولانا حامد حقانی کی امامت پر اصرار کیا، جس پر مولانا حامد الحق نے اپنے چچا کے حکم پر نماز جنازہ پڑھائی۔ جس میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، گورنر شاہ فرمان، وزیر اعلیٰ محمود خان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید، سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا، عوامی نیشنل پارٹی کے قائم مقام صدر غلام بلور، مسلم لیگ (ن) کے رہنما ظفر الحق، امیر مقام، جاوید ہاشمی، جے یو آئی (ف) کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب، ترجمان مفتی کفایت اللہ، علامہ احمد لدھیانوی، اورنگزیب فاروقی، مفتی شہاب الدین پوپلزئی، مفتی عدنان کاکا خیل، اشرف تھانوی، مولانا طیب طاہری، مولانا اللہ وسایا، زاہد محمود قاسمی، صاحبزادہ طارق اللہ، لیاقت بلوچ، سینیٹر مشتاق احمد خان اور دیگر سیاسی رہنما و کارکن، سینئر صحافی حامد میر، مولانا سمیع الحق کے رفقا، شاگردوں اور عقیدت مندوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ تعزیت اور جنازے کے لئے ملک بھر اور افغانستان سے بھی مدرسے کے طلبہ کی بڑی تعداد پہنچی۔ اکوڑہ خٹک کی طرف آنے والے راستوں میں کئی کلومیٹر تک جوق در جوق افراد کی طویل قطاریں لگ گئی۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کی علالت کے باعث معاون خصوصی برائے صدر وفاق مولانا ڈاکٹر سعید خان اسکندر، مفتی خالد محمود، مولانا محمد ابراہیم سکھرگاھی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ قاضی احسان، مولانا اعجاز مصطفے، جمعیت علما اسلام (س) سندھ و کراچی کے رہنماؤں حافظ احمد علی ، مولانا اسفندیار خان، مولانا اقبال اللہ، مفتی حماد اللہ مدنی سمیت بڑی تعداد میں پارٹی کارکنوں اور معتقدین نے کراچی سے جنازہ میں شرکت کی۔ وفاق المدارس کے مولانا پیر عزیز الرحمن ھزاروی، مولانا قاضی عبدالرشید، مولاناحسین احمد، مفتی صلاح الدین ایوبی، مولانا محمد قاسم، مولانا اصلاح الدین حقانی سمیت منتظمین و مسئولین نے بھی شرکت کی۔انہوں نے شہید کے بھائی اور وفاق المدارس کے نائب صدر مولانا انوار الحق حقانی، مولانا حامدالحق حقانی اور مولانا راشدالحق حقانی سمیت دیگر اہلخانہ اور جامعہ کے متعلقین سے اظہار تعزیت بھی کیا۔ اس موقع پر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ ایک ہزار کے قریب پولیس اہلکار ڈیوٹیوں پر تعینات رہے۔اسی طرح سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کی ڈیوٹیوں بھی لگائی گئیں جبکہ جے یو آئی (س)کے اپنے رضا کار بھی سیکورٹی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ نماز جنازہ سے قبل حامد الحق اور جے یو آئی (س) کے رہنما مولانا یوسف شاہ لوگوں کو پرامن رہنے کی تلقین کرتے رہے۔اس موقع پر دارالعلوم حقانیہ کے نئے مہتمم کا اعلان بھی کیا گیا۔ مولانا یوسف شاہ نے نماز جنازہ کے موقع پر اعلان کیا کہ دارالعلوم حقانیہ کے نئے مہتمم مولانا سمیع الحق کے بھائی مولانا انوارالحق ہوں گے جب کہ بیٹے حامد الحق نائب مہتمم ہوں گے۔ دوسری جانب مولانا کی شہادت پر صوبے بھر میں سوگ منایا گیا،سوگ کا اعلان صوبائی حکومت نے کیا تھا۔ سوگ کےسلسلے میں تمام سرکاری تقریبات منسوخ کردی گئیں، قومی پرچم سرنگوں رہا اور تعلیمی اداروں میں تعطیل تھی۔ اکوڑہ خٹک اور جہانگیرہ سمیت مختلف شہروں میں کاروباری مراکز بند رہے۔ اس سے قبل جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب مولانا سمیع الحق کی میت راولپنڈی سے اکوڑہ خٹک پہنچائی گئی تو کہرام مچ گیا۔جامعہ حقانیہ کے ہزاروں طلبہ اور اساتذہ نے شہید کا آخری دیدار کیا۔اس موقع پر مولانا کے رفقا ضبط کا دامن برقرار نہ رکھ سکے اور آبدیدہ ہوگئے، جبکہ تعزیت کے لئے صبح سے ہی لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا جو شام تک جاری رہا۔ مولانا سمیع الحق کی رہائش گاہ اور اطراف میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ داخلی راستوں پر واک تھرو گیٹ لگا دیئے گئے ہیں اور رہائش گاہ کے اندر جانے والوں کی جامہ تلاشی لی جارہی ہے۔ مولانا سمیع الحق ایک عظیم شخصیت تھے۔ ان کی دینی اور سیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مولانا سمیع الحق گفتار میں انتہائی نرم اور خوش اخلاق لیکن جب ممبر یا اسٹیج پر تقریر کے لیے آتے تو یکسر ایک مختلف شخصیت محسوس ہوتے تھے۔ مولانا سمیع الحق نے اپنی موت سے ایک روز قبل ہی خیبر پختون کے ضلع چارسدہ کے تنگی کے علاقے میں ایک کانفرنس سے غالباً اپنا آخری خطاب کیا تھا، یعنی وہ جس سوچ اور نظریات کے داعی تھے۔ آخری وقت تک اس پر عمل پیرا بھی رہے۔ مولانا سمیع الحق نے ہمیشہ اپنے عمل سے ثابت کیا تھا کہ وہ ایک محب وطن اور پر امن پاکستانی ہیں، انہوں نے ملک میں پر تشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ہمیشہ اس کی مذمت کی۔ مولانا سمیع الحق افغان طالبان پر کافی اثرورسوخ رکھتے تھے اور ملا عمر جو طالبان کے بانی اور امیر تھے۔اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مولانا سمیع الحق کے شاگرد ہیں۔مولانا سمیع الحق جہادی رہنماؤں کے لیے ’’روحانی باپ‘‘ کی سی حیثیت رکھتے تھے، مولانا جلال الدین حقانی کے علاوہ تحریک طالبان کے کئی رہنما ان کے شاگرد رہے۔ افغانستان میں دیر پا امن اور استحکام کے سلسلے میں اکثر پاکستانی اور افغان اعلیٰ حکام ان سے ملاقاتیں کرتے تھے، اور افغانستان کے پاکستان میں تعینات سفیر ان سے باقاعدگی سے ملتے رہتے تھے۔ جبکہ حال ہی میں افغان حکومت کے ایک وفد نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ان سے ملاقات کرتے ہوئے افغان امن عمل کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More