زینت محل بیگم کی ریشہ دوانیاں عروج پر پہنچ گئی تھیں

0

قسط نمبر: 256
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
مرزا دارا بخت کا غم اگر نہ کیا تو زینت محل نے۔ تھوڑی مدت کے اندر جواں بخت کی راہ سے تین تین کانٹوں کا ہٹ جانا زینت محل کی نظر میں ان کے بیٹے کے حق میں تائید غیبی کا حکم رکھتا تھا۔ انہوں نے جواں بخت کی ولی عہدی کے لئے جان توڑ کوششیں شروع کردیں۔ بادشاہ پر تو وہ زور ڈالتی ہی رہیں، اس بار انہوں نے صاحبان انگریز، بالخصوص طامس مٹکاف صاحب کلاں بہادر اور ان کے نائب سیمن فریزر (Simon Fraser) صاحب کے یہاں تحفے تحائف اور درخواستوں کی بھرمار کردی۔ بزرگان دین کے مزارات پر بھی بکثرت جا جاکر انہوں نے دعائیں کیں اور منتیں مانیں۔ بادشاہ کے دل میں دو خیال تھے۔ ایک تو یہ کہ منجموں کے قول کے مطابق میرے بعد بادشاہی نہیں، اور دوسرا یہ کہ جواں بخت اگر ولی عہد اور پھر فرض کردم بادشاہ ہوئے بھی تو انہیں استطاعت نہ تھی کہ وہ شاہی قرض ادا کر دیں۔ ادھر مرزا فخرو نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے ولی عہد بنادیں، میں بادشاہ ہوا تو جہاں پناہ کے تمام قرضے ادا کردوں گا، چاہے اس میں مجھے اپنے کو بیچنا ہی کیوں نہ پڑے۔
ادھر انگیریز بہادر اپنی چالیں چل رہا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ شاہی کا نام مٹا ڈالنے اور دودمان تیموریہ کے دماغ سے دود حکومت ہمیشہ کے لئے زائل کردینے کا یہ بے نظیر موقع ہے۔ بادشاہ کو بڑی حد تک نظر انداز کرکے (زینت محل تو ابھی کسی مشار میں نہ تھیں)، انگریز صاحبان نے مرزا فتح الملک بہادر سے براہ راست گفتگو شروع کردی۔ بلکہ اگر مرزا خورشید عالم کے قوم (بروایت عرش تیموری) پر اعتبار کیا جائے تو مرزا محمد دارا بخت کے رہگرائے عالم جاودانی ہونے کے پہلے ہی سے مرزا فتح الملک بہادر اور انگریزوں کے درمیان بات چیت جاری ہوچکی تھی۔ لیکن یہ قریب قیاس نہیں معلوم ہوتا۔ بہرحال، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ 1849ء میں مرزا فخرو نے انگریزوں سے مذاکرات شروع کئے اور سب باتیں طے ہونے کے بعد حضرت خلافت پناہی کی خدمت میں ایک ہی تاریخ (3 ستمبر 1852ئ) کو تین عریضے مشتمل برایں مضمون بھیجے کہ ولی عہد مقرر ہوجانے پر میں تمام زندگی شاہ آسماں جاہ کی اطاعت اور غلامی کروں گا اور حضرت ملکہ دوراں نواب زینت محل صاحب مد ظلہا کو اپنی والدہ سے زیادہ سمجھوں گا۔ دوسرے عریضے میں انہوں نے شاہی قرضے کی مکمل ادائیگی کا وعدہ کیا اور تیسرے عریضے میں انہوں نے یقین دہانی کی کہ وہ نواب زینت محل کی مرضی کے خلاف کبھی نہ چلیں گے اور نواب زینت محل اور مرزا جواں بخت کی تمام مراعات برقرار رکھیں گے۔ گمان غالب ہے کہ یہ خط بادشاہ نے مرزا فخرو پر اخلاقی دباؤ ڈال کر اس وقت لکھوائے جب انہیں صاحبان انگریز کے فیصلے کا پتہ چل گیا جو کلکتہ سے ان کی خدمت میں روانہ کیا گیا تھا کہ حکومت انگلشیہ مرزا فخرو کو ولی عہد تسلیم کرتی ہے اور نواب زینت محل نیز مرزا جواں بخت کے لئے کسی قسم کی مراعات دیا جانا غیر ممکن ہے۔
قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز نے مرزا محمد دارا بخت کے انتقال کی خبر سنتے ہی از خود فیصلہ کرلیا تھا کہ ولی عہدی مرزا فخرو کو ملے گی اور ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ کے سانحہ ارتحال کے بعد بادشاہی ختم کر دی جائے گی۔ چنانچہ صاحب کلاں بہادر اور صاحب گورنر جنرل بہادر نے بادشاہ کی تجویز کو بنظر استحسان دیکھا۔ لیکن شرائط ولی عہدی براہ راست مرزا فخرو بہادر سے طے کیں۔
کئی سال کی گفت وشنید کے بعد انگریز نے فتح الملک بہادر کو ولی عہد تسلیم کر لیا، لیکن اس شرط پر کہ بعد وفات حضور قدر قدرت پیر و مرشد برحق بادشاہی ختم ہو جائے گی، قلعہ معلیٰ خالی کر دیا جائے گا اور مطلق العنانی کے تمام رموز و نشانات یک قلم محو کر دیئے جائیںگے۔ نہ چتر ہو گا نہ میگ ڈمبر، نہ ماہی مراتب ، نہ نوبت۔ سکہ شاہی کا ڈھلنا تو مدتوں سے موقوف تھا۔ گوالیار اور الٰہ آباد کی ٹکسالوں میں شاہ عالمی سکے ڈھلتے تھے، لوگ ان سے کام چلاتے تھے۔ کمپنی بہادر کے سکے بھی روز افزوں قوت پکڑتے جاتے تھے۔ کمپنی انگریز بہادر نے مدتوں پہلے سے آرکاٹ، سورت اور مرشد آباد سے کئی شاہی ٹکسالوں میں سکے ڈھالنے شروع کر دیئے تھے، لیکن ان پر شاہ دہلی کا نام ہوتا تھا۔ پھر 1835ء کے سکوں پر بادشاہ دہلی کے بجائے انگریز بادشاہ ولیم چہارم کا نام اور چہرہ دیا گیا، اور 1840ء کے سکوں پر ملکہ وکٹوریہ نمودار ہوئیں۔ اب یہی سکے ہر جگہ متداول تھے۔
ملک ہند میں میں بادشاہی کی علامت لے دے کر ایک جمعے کا خطبہ تھا، جس میں بادشاہ کا نام لیا جاتا تھا۔ اب طے ہوا کہ جمعہ کے خطبے میں بھی بادشاہ کا نام نہ لیا جائے۔ مرزا فخرو خاندان تیموریہ کے سردار تسلیم کئے جائیں گے، لیکن انہیں مہر ولی میں مکان بنا کر قیام کرنا ہو گا اور نواب گورنر جنرل بہادر نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر ممالک شمال مغرب کو عہدہ برابری سے کرسی دینی ہوگی۔ قلعہ معلیٰ کے انخلا کے عوض میں کسی قسم کی رقم کا وعدہ نہ کیا گیا۔
مرز افتح الملک بہادر 3 ستمبر 1865ء کو صاحب عالم و عالمیان، مرشد زادہ جہانیاں، مرزا محمد سلطان غلام فخرالدین فتح الملک شاہ بہادر دام حشمہ و اقبالہ، کے القاب و خطابات کے ساتھ ولی عہد مقرر کئے گئے۔ لیکن اس موقعے پر کسی طرف سے کسی خاص خوشی یا جشن کا اہتمام نہ ہوا۔ فتح الملک بہادر رنجیدہ تھے کہ آل چغتا کی سلطانی کا چراغ ان کے ہاتھوں کشتہ ہو رہا تھا۔ لیکن وہ شاید اپنے دل میں یہ خیال کرتے ہوں کہ بادشاہی تو اب برائے نام ہی باقی تھی، رہی نہ رہی، اس سے فرق کچھ نہیں رہتا۔ میں نے کم سے کم اپنے گھرانے کے نام کو محفوظ کر لیا۔ نواب زینت محل کی ڈیوڑھی میں تو ماتم کا سا ماحول تھا۔ ملکہ دوراں ہاتھ اٹھا کر بلند آواز میں مٹکاف صاحب کو کوس رہی تھی اور پکار پکار کر کہہ رہی تھیں کہ صاحب کلاں کو اس ناانصافی کا بدلہ ضرور ملے گا۔ بعض کا قول ہے کہ ملکہ دوراں نے یہ بھی اعلانیہ کہا کہ صاحب کلاں اور اس کی میم دونوں ہی زہر کھائیں گے اور خونی قے کر کر کے مریں گے۔ نواب زینت محل نے جھٹ پٹ ایک عرضی سیدھے ملکہ معظمہ وکٹوریہ کی بھی خدمت میں بھیج دی کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔ لیکن ان کی وہاں کون سنتا تھا۔ شہر اور قلعے میں بہر حال عمومی طور پر لوگ خوش تھے کہ مرز افتح الملک بہادر جیسا خوش خلق اور نیک سیرت اور ذی علم اور صحیح معنوں میں حقدار شہزادہ ولی عہد بنایا گیا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More