’’سہمی ہوئی اقلیت‘‘

0

’’سہمی ہوئی اقلیت‘‘ مسجد کے سامنے بیٹھی تھی اور نہایت ادب و توجہ سے اپنے درمیان کھڑے واعظ کا وعظ سن رہی تھی۔ کاندھے سے چھوٹا سا سفری بیگ لٹکائے واعظ ہاتھ میں کوئی کتاب لئے اردگرد موجود لوگوں سے مخاطب تھا۔ وہ اپنے عقیدے کے مطابق خدا کے وجود کا یقین دلا رہا تھا اور آس پاس بیٹھے لوگوں کو ترغیب دے رہا تھا کہ خداوند کے وجود کا یقین رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ وہ انہیں اس کتاب سے واقعات بھی سنا رہا تھا۔ اس کی آواز بلند تھی، اتنی بلند کہ نہ صرف وہاں بیٹھا ہر شخص سکون سے سن سکتا تھا، بلکہ قریبی مسجد کے صحن میں موجود کسی بھی موحد کی سماعت پر بھی یہ الفاظ دستک دے سکتے تھے۔ واعظ بلا خوف و خطر اپنے ہم مذہبوں سے مخاطب تھا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے سیلانی کے قدم خود بخود رک گئے۔ وہ کچھ دیر وہاں کھڑا اپنی سانسیں درست کرتا رہا اور پھر غیر محسوس طریقے سے اس ہجوم کے قریب ہو گیا۔ وہ ان کے چہروں پر خوف تلاش کرنا چاہتا تھا۔ ان کی آنکھوں سے جھلکتا وہ انجانا ڈر دیکھنا چاہتا تھا، جو بائیں بازو کے ’’روشن خیال‘‘ دوستوں کو کراچی کے حبیب بینک پلازہ کی طرح دور سے دکھائی دیتا ہے اور وہ باجماعت سینہ کوبی شروع کر دیتے ہیں… سیلانی نے وہاں موجود لوگوں کے چہروں پر کسی قسم کے خوف کے آثار محسوس کئے، نہ انہیں سہما ہوا پایا۔ وہ ایک اجنبی کے یوں پاس آجانے پر ذرا دیر کو اس کی جانب متوجہ تو ضرور ہوئے، لیکن پھر ان کی توجہ واعظ کی آواز نے اپنی جانب کھینچ لی۔
اسلام آباد میں سیلانی کا معمول ہے کہ وہ صبح سویرے فجر کے بعد چہل قدمی کرتا ہے۔ سیکٹر آئی ٹین چنبیلی روڈ پر چہل قدمی کے لئے لگ بھگ سوا کلومیٹر طویل راہداری بنی ہوئی ہے۔ سیلانی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم دو چکر تو ضرور لگائے۔ یہاں چہل قدمی کرتے ہوئے اس نے ایک دن عجیب منظر دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ ویگن اسٹاپ کے پاس سیدنا حسنؓ مسجد کے عین سامنے پارک میں صبح کے وقت صفائی، ستھرائی پر مامور عملہ مؤدب ہو کر بیٹھا ہے اور ان کے بیچ ایک واعظ یا پادری صاحب بائبل لئے انہیں پندو نصائح کر رہا ہے۔ اس کی آواز خاصی بلند تھی، اتنی کہ مسجد کے صحن میں بیٹھا شخص باآسانی سن سکتا تھا۔ سیلانی کو تعجب اور اسلام آباد کے ماحول میں رچی مذہبی ہم آہنگی پر خوشی بھی ہوئی۔ اس اجتماع کے لئے وہاں پولیس موبائل تو کیا، سپاہیوں کی جوڑی بھی موجود نہ تھی، کیوں کہ کوئی سیکورٹی کا کوئی ایشو تھا ہی نہیں۔
اس دن کے بعد وہاں سے گزرتے ہوئے سیلانی روز ہی یہ اجتماع دیکھتا، جانے یہ اجتماع کب سے ہو رہا تھا۔ صفائی ستھرائی کا عملہ وہاں حاضری کے لئے آتا تو واعظ صاحب بھی آجاتے۔ حاضری سے پہلے وہ بائبل لے کر کھڑے ہو جاتے۔ آس پاس عیسائی برادری کے خواتین و حضرات ہالہ بنا کر بیٹھ جاتے اور وعظ سننے کے بعد نارنجی جالی دار جیکٹ پہن کر اپنے اپنے کام پر روانہ ہو جاتے۔ سیلانی کو اس اجتماع کا تعارف کرانے کی ضرورت روشن خیال لکھاریوں کی ایک مہم کی وجہ سے پیش آرہی ہے۔ یورپی ممالک میں پناہ حاصل کرنے والے ’’خوش قسمت‘‘ اور وہاں جانے کے خواہش مندوں کا پسندیدہ موضوع کسی نہ کسی بہانے توہین شان رسالتؐ کے قانون پر رائے زنی کرنا ہے۔ بائیں بازو کے مغرب زدہ روشن خیالوںکی چھاتیوں میں آج کل اقلیتوں کے لئے خوب دودھ اترا ہوا ہے۔ ایسی ہی کیفیت میں سیلانی کا ایک دوست بھی مبتلا ہے۔ جناب ایک نیوز چینل میں سینئر پروڈیوسر ہیں۔ ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی۔ فیس بک پر بھی خاصے متحرک ہیں۔ یہاں وہ اکثر مذہبی مزاج رکھنے والوں کے پیچھے لٹھ لے کر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان میں مذہبی طبقے سے زیادہ جاہل، اجڈ، ظالم اور دقیانوسی کوئی نہیں اور ان کے خلاف کلمہ سوشلزم بلند کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے اور وہ یہ کلمہ ادا کرنے سے چوکتے بھی نہیں۔ سیلانی کی بلا سے وہ نہ چوکیں اپنے اعصاب پر سوار ’’رجعت پسندوں‘‘ کو نیچے گرانے کی کوشش میں لگے رہیں۔ لیکن سیلانی کو تب جواب دینا پڑتا ہے جب وہ حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔ یہ موقع ان دنوں آسیہ مسیح کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی مل گیا ہے اور ساتھ ہی ان دیسی لبرلوں کو اپنی کمریں کھجانے کی بھی سہولت میسر آگئی ہے۔ سب نے اپنا اپنا جوڑ تلاش کیا اور کمر سے کمر ملا کر امداد باہمی کے طور پر ایک دوسرے کی مدد کرنے لگ گئے۔ یہ صاحب بھی فوراً ہی مورچہ بند ہو گئے اور فیس بک پر ایک روتی ہوئی لڑکی کی تصویر لگا کر کیپشن لکھ ڈالا:
’’سہمی ہوئی اقلیت:
آسیہ مسیح کے معاملے پر کسی مسیحی کی پوسٹ دیکھی ہے؟ نہیں دیکھی تو غور کرنا کیوں نہیں دیکھی؟ آپ کو شاید سمجھ آجائے کہ سہمی ہوئی اقلیت کیا ہوتی ہے اور کیسا محسوس کرتی ہے…‘‘
یہ تصویر اور یہ کیپشن دیکھ کر سیلانی سر پر ہاتھ پھیرتا ہی رہ گیا کہ یہاں کون سی اقلیت ایسی سہمی ہوئی ہے؟ اس کی زندگی کا بڑا حصہ اقلیتوں کے ساتھ گزرا ہے۔ کراچی کے علاقہ ماری پور شہر کے ان علاقوں میں سے ہے، جہاں عیسائی ہی نہیں، ہندو برادری بھی بڑی تعداد میں آباد ہے اور سب مل جل کر رہتے ہیں۔ سیلانی نے وہاں عیسائیوں کی گلیوں میں کرسمس اسٹار تو چمکتے دیکھے ہیں، لیکن کسی کے چہرے پر خوف نہیں دیکھا۔ اسے یاد پڑتا ہے ماری پور گریکس کے میدان میں کبھی خوب رونق لگا کرتی تھی۔
بڑے سے میدان میں کرکٹ کی چار پچز ہوتی تھیں۔ ایک پچ ینگ مسلم کی تھی تو اس کے سامنے پاک کرسچین کی۔ ایک طرف شمع کرکٹ کلب نے میدان جمایا ہوتا تو دوسری جانب بروکس کرکٹ کلب کے کھلاڑی میدان میں موجود ہوتے۔ شمع کرکٹ کلب میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، لیکن اس کا کپتان رشید عرف شیدا اسی ’’سہمی ہوئی اقلیت‘‘ سے تھا۔ پاک کرسچین میں تقریباً سارے ہی کھلاڑی اسی اقلیت سے تھے اور مزے سے کھیلتے تھے… یہ ہم آہنگی صرف اس میدان تک ہی موجود نہ تھی۔ اس میدان سے ذرا آگے ابراہیم علی بھائی اسکول کے پیچھے اچھا خاصا گرجا گھر تھا اور ہے، جس کی ہر اتوار کو گھنٹے کی آواز سیلانی بھی اپنے گھر میں سنا کرتا تھا، سب ہی سنا کرتے تھے اور آج بھی سنا کرتے ہیں۔ جیسے عیسائی دوست ہماری مساجد کے میناروں سے اذانوں کی آواز سنتے ہیں… یہی نہیں، مدنی کالونی ماری پور کی مدنی جامع مسجد کٹر دیوبند مسلک کی ہے، جس کے عین سامنے محض پندرہ فٹ کے فاصلے پر پاری صاحب کا گھر ہے۔ پاری صاحب ہریجن ہندو مذہب سے ہیں اور اک عرصے سے ماری پور میں اپنی برادری کے ساتھ آباد ہیں۔ اسی مسجد سے گن کر ستر قدم اٹھائے جائیں تو ان کا مندر کا آجاتا ہے، جہاں ہر شام بلا ناغہ بھجن ہوتے ہیں۔ یہاں ہولی دیوالی منائی جاتی ہے، جس پر کبھی کوئی معترض نہ ہوا۔ اسی ماری پور میں سکھ برادری کے بھی چند گھر ہیں اور پوری مذہبی آزادی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر کبھی خوف نہیں آیا۔ جانے یہ کھبے دانشور کہاں خوف لے آتے ہیں اور ان چہروں پر چپکانا چاہتے ہیں؟
اس ملک میں اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر کبھی کسی عیسائی، ہندو، سکھ برادری یا کسی اقلیت کو قومی دھارے سے کاٹنے کی کوشش نہیںکی گئی، لیکن یہ کھبے ہتھ والا دانشور طبقہ اپنی دکان چمکانے، اپنی مانگ بڑھانے اور این جی اوز کے حلقوں میں بھاری پڑنے کے لئے اقلیتوں کے چہرے خوف سے لتھڑنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں پاکستان کو ایک جنونی مذہبی ریاست کے طور پر پیش کرکے اپنا وظیفہ بڑھانا چاہتے ہیں… چنبیلی روڈ پر عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والوں کا یہ اجتماع آسیہ مسیح کی رہائی کے دن بھی اسی طرح منعقد ہوا تھا اور ان دھرنوں کے دنوں میں بھی جب پورا ملک کا پہیہ تقریباً جام ہوگیا تھا۔ کسی نے ان کی جانب انگلی اٹھائی نہ آنکھ۔ آج بھی وہی واعظ صاحب اپنی گرجدار آواز میں بیان فرما رہے تھے اور ’’سہمی ہوئی اقلیت‘‘ اطمینان کے ساتھ ہمہ تن گوش تھی۔ سیلانی ان کے قریب کھڑا ان کے مطمئن اور بے خوف چہروں پر خوف، ڈر اور پریشانی کی رمق تلاش کرنے لگا۔ انہیں وہاں مسجد کے سامنے وعظ سننے میں کوئی مسئلہ تھا، نہ واعظ کو اکثریتی آبادی کی عبادت گاہ کے سامنے اونچی آواز میں بات کرتے ہوئے کوئی پریشانی تھی۔ واعظ نے اطمینان سے اپنا وعظ مکمل کیا اور ہاتھ میں پکڑی کتاب کو کاندھے سے لٹکے بستے میں ڈالنے لگا۔ یہ وعظ ختم ہونے کا اشارہ تھا۔ وعظ ختم ہونے پر سب کپڑے جھاڑ کر اٹھنے لگے اور سیلانی ایک طرف کھڑا ان کے مطمئن چہرے دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More