صوبے بھر کے لئے سندھ فوڈ اتھارٹی کا صرف 12 رکنی عملہ

0

عظمت علی رحمانی
صوبے بھر کیلئے سندھ فوڈ اتھارٹی کے افسران و ملازمین کی تعداد صرف 12 ہے۔ یہ بارہ رکنی عملہ ہی سندھ بھر میں انسپکشن کرنے کا ذمے دار بنایا گیا ہے۔ جبکہ حکومت سندھ، فوڈ اتھارٹی کیلئے تاحال لیبارٹری بھی نہیں بنا سکی ہے۔ چنانچہ اشیائے خور و نوش کے تمام ٹیسٹ نجی لیبارٹریوں سے کرانے پڑتے ہیں۔ سندھ فوڈ اتھارٹی کی اب تک کی کارکردگی محض 14 مقدمات درج کرکے 16 لاکھ روپے جرمانہ وصول کرنے، 39 ہوٹل اور بیکریاں سیل کرنے اور 5 افراد کو گرفتار کرنے تک ہی محدود ہے۔
حکومت سندھ کی جانب سے اٹھارہویں ترمیم کے بعد سب سے اہم شعبے، فوڈ اتھارٹی کا قیام بہت ہی زیادہ تاخیر سے کیا گیا۔ رواں برس مئی میں قائم ہونے والی سندھ فوڈ اتھارٹی کی جانب سے باقاعدگی سے شہر میں اب تک کام شروع نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم چار روز قبل کلفٹن کے ایک نجی ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد دو معصوم بچے فوڈ پوائزنگ کا شکار ہو کر جاں بحق ہوئے تو حکومت سندھ کو ہوش آیا اور یوں سندھ فوڈ کنٹرول اتھارٹی کو فعال بنا نے کیلئے اس میں تین ایم پی ایز کو شامل کردیا گیا۔ سندھ فوڈ کنٹرول اتھارٹی میں اسپیکر سندھ اسمبلی کی منظوری کے بعد دو حکومتی ارکان ڈاکٹر سہراب خان سرکی، گھنور خان اسران اور ایم اکیو ایم کے رکن سنجے پاروانی کو اتھارٹی میں ممبر کے طور پر شامل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ حکومت سندھ کی جانب سے یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب زہر خورانی سے دو بھائی 5 سالہ محمد عمر اور ڈیڑھ سالہ احمد عمر جاں بحق ہو گئے۔ دونوں بھائیوں کا جناح اسپتال میں پوسٹ مارٹم کیا گیا اور کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ آنے تک رپورٹ محفوظ کرلی گئی ہے۔ دوسری طرف تفتیشی حکام نے دونوں بچوں کے جسم سے مختلف اجزا اور خون کے نمونے اور ریسٹورنٹ سے حاصل کئے گئے خوراک کے نمونوں کو تجزیئے کیلئے پرائیویٹ لیبارٹری بھجوادیا تھا۔ اس حوالے سے ایم ایل او جناح اسپتال ڈاکٹر شیراز کا کہنا تھا کہ رپورٹ آنے میں 5 سے 10 روز لگ سکتے ہیں، جس کے بعد ہی حتمی وجہ سامنے آسکے گی۔
معلوم رہے کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ فعال پنجاب فوڈ اتھارٹی ہے، جس کا قیام 2010ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے روزانہ کی بنیاد پر نہ صرف غیر قانونی دھندوں میں ملوث مافیا کو بند کیا، بلکہ غیر معیاری و ناقص نال رکھنے اور بنانے پر سینکڑوں ہوٹلز اور بیکریاں سیل کر کے مالکان کو گرفتار کرایا۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ماہرین کی جانب سے اشیائے خور و نوش کی پیکنگ کیلئے باقاعدہ قانون سازی کرانے کی تیاری کی گئی ہے۔ نئے قانون کے مطابق خوراک کی پیکنگ میں ایلونیم نما میٹریل سے بنے کپ اور پلیٹ رکھنے پر پابندی عائد ہوگی۔ اشیائے خور و نوش کی پیکنگ کیلئے اخبار یا دیگر ردی کا استعمال بھی جرم ہوگا۔ فوم نما پلیٹ اور کپ کا تین تہوں پر مشتمل ہونا لازم ہوگا۔ اس کے علاوہ ڈبوں کو جوڑنے کیلئے استعمال ہونے والی گوند کا ذریعہ حلال جانوروں سے ہونا لازمی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی نے تین تہوں والے پلاسٹک بیگ میں گھی اور آئل کی پیکنگ کو ضروری قرار دیا ہے۔ جبکہ پینے کے پانی کی 19 لیٹر بوتل کو چالیس بار استعمال کے بعد ری سائیکل کرنا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مذکورہ ایس او پیز کو سائنٹیفک پینل کی منظوری کے بعد مکمل قانون، پنجاب فوڈ اتھارٹی بورڈ کے آئندہ اجلاس میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد نافذ العمل ہوگا۔
ادھر سندھ حکومت کی جانب سے فوڈ اتھارٹی کا قیام مئی 2018ء میں عمل میں لایا گیا، تاکہ ہزاروں ہوٹلز، بیکریوں، گھی بنانے والی فیکٹریاں اور دودھ کے علاوہ دیگر اشیائے خور و نوش کے اداروں کا سائنٹیفک بنیادوں پر انسپکشن کیا جائے۔ حکومت سندھ کے محکمہ فنانس کی جانب سے اس اتھارٹی کا سالانہ بجٹ 30 کروڑ روپے مقرر کیا گیا ہے۔ اس اتھارٹی کا باقاعدہ ایک ڈائریکٹر بنایا گیا ہے، جس کے ماتحت 6 فوڈ انسپکٹرز کو فوڈ ٹیکنیشن کو نام دیا گیا اور ڈائریکٹر کے ماتحت دو ڈپٹی ڈائریکٹر اور دیگر عملہ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ ڈائریکٹرسمیت عملے کی کل تعداد 12 ہے اور اب ان میں 3 ایم پی اے شامل ہونے کے بعد ان کی تعداد 15 کہی جا سکتی ہے۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر ابرار شیخ کا کہنا تھا کہ شعبے کے قیام کو بہت کم وقت گزرا ہے، اس کے باوجود انہوں نے کافی محنت کی ہے۔ 5 ہزار 600 سے زائد مختلف اقسام کے کارخانوں، بیکریوں اور ہوٹلوں کو نوٹسز جاری کئے گئے ہیں۔ 39 ریسٹورنٹس اور بیکریاں سیل کی گئی ہیں، جن میں سے 14 بیکریوں اور ریسٹورنٹس کے مالکان سمیت دیگر افراد پر مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف 5 ملزمان گرفتار ہوسکے، جن کو بعد ازاں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ سندھ فوڈ اتھارٹی نے اب تک جرمانے کی مد میں 16 لاکھ 10ہزارروپے وصول کئے ہیں۔ ایک سوال پر ابرار شیخ کا مزید کہنا تھا کہ ہم جلد ہی اشتہارات جاری کرکے مزید لوگ بھرتی کریں گے، تاکہ اس اہم شعبے کے کام کو تیزی سے آگے بڑھایا جاسکے۔
ادھر فوڈ پوائزنگ کا شکار ہونے والے بچوں احمد عمر اور محمد عمر کے کیس میں تا حال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تھانہ ساحل میں درج مقدمے کے حوالے سے کیس کے مدعی اور بچوں کے والد احسان ولد اسلم کا کہنا تھا کہ ’’میں فی الوقت اپنی فیملی کے ساتھ مصروف ہوں۔ اس لئے کیس کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے، تاہم جلد اس حوالے سے بھی متعلقہ حکام سے بات ہوگی‘‘۔ ایس پی کلفٹن سہائے عزیز کا کہنا تھا کہ ’’جب تک ریورٹس سامنے نہیں آجاتیں، تب تک کیس میں پیش رفت نہیں ہو سکتی‘‘۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More