لاہور میں پرانے کمبلوں کا بزنس ڈیڑھ ارب تک پہنچ گیا

0

نجم الحسن عارف
لاہور کا لنڈا بازار صارفین کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا لنڈا بازار ہے۔ یہاں پرانے کمبلوں کا بزنس ڈیڑھ ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ جاپان اور کوریا سے آنے والے پرانے کمبلوں نے نئے کمبلوں کی صنعتی اجارہ داری کا خواب پورا نہیں ہونے دیا۔ کاروباری حضرات کمبلوں کو ’’اسٹیم آئرن‘‘ سے گزارنے کو ہی دھلائی قرار دیتے ہیں، جبکہ یہ بنیادی طور پر استری کرنے کا عمل ہے، تاکہ کمبلوں کو قابل فروخت حالت میں لایا جا سکے۔ بازار میں عام معیار کا پرانا کمبل 500 روپے تک بآسانی دستیاب ہے۔ تاہم کاروباری حضرات اور دکاندار ان پرانے کمبلوں کی فروخت کے دوران اس سے بھی کہیں کمانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ انجمن تاجران کے سیکریٹری جنرل شیخ محمد نعیم بادشاہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ستمبر سے دسمبر تک کمبلوں کے سیزن کے دوران دس ہزار بنڈل کمبل فروخت ہو جاتے ہیں۔ ان کے بقول ایک بنڈل میں 30 کمبل ہوتے ہیں۔ کمبل کی کم ترین قیمت پانچ سو روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانچ سو روپے میں فروخت ہونے والا کمبل معیار کے اعتبار سے نئے کمبل سے بہتر ہوتا ہے۔ اس میں پائیداری، حدت اور ملائمت میں بھی ہوتی ہے۔ دوسری جانب عام تاجروں کا کہنا ہے کہ جاپان سے درآمد ایک کمبل جو سنگل بیڈ کیلئے استعمال ہوتا ہے، اس کی قیمت 500 روپے سے شروع ہوتی ہے۔ پانچ سو روپے کا کمبل سنگل تہہ کا ہوتا ہے اور سنگل بیڈ کیلئے کام آتا ہے۔ جبکہ بہتر حالت کا کمبل 600 روپے میں بھی دستیاب ہوتا ہے۔ ڈبل تہہ والا پرانا جاکے بقول ڈبل بیڈ کیلئے سنگل تہہ کا جاپانی کمبل 800 روپے سے ایک ہزار روپے اور ڈبل تہہ کا کمبل برائے ڈبل بیڈ 2000 سے 2500 روپے تک فروخت ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ لاہور کے لنڈا بازار میں بالعموم جاپان اور کوریا سے پرانے درآمد کردہ کمبل فروخت ہوتے ہیں۔ زیادہ تر دکاندار جاپان کے کمبلوں کے کاروبار میں ہیں۔ ان کے بقول جاپان کے کمبلوں کا معیار بہتر ہوتا ہے۔ ان کے کلر سافٹ (ہلکے) مگر ملٹی کلر ہوتے ہیں۔ ان کمبلوں کا سائز کورین کمبلوں کے مقابلے میں قدرے چھوٹا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جاپانی شہری قامت میں زیادہ نہیں ہوتے۔
لنڈا بازار لاہور کے تاجروں سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ جاپان اور کوریا سے آنے والے بنڈلوں میں تعداد کا بھی فرق ہوتا ہے۔ جاپان کے بنڈل میں عام طور پر 30 کمبل ہوتے ہیں، جبکہ ایک بنڈل کا وزن 100 کلو گرام کے قریب ہوتا ہے۔ کورین بنڈل میں کمبلوں کی تعداد بالعموم پندرہ ہوتی ہے۔ ان کا وزن نسبتاً جاپان کے کمبلوں کے زیادہ ہوتا ہے اور ان کا سائز بھی قدرے بڑا ہوتا ہے۔ خیال رہے جاپان کمبلوں کی چوڑائی 140 سینٹی میٹر سے اور لمبائی 200 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔
جاپانی کمبلوں میں اونی ساختہ کمبل نسبتاً سستے یعنی پانچ سے چھ سو روپے تک (سنگل بیڈ) فروخت ہوتے ہیں۔ ان میں ملائمت کم ہوتی ہے۔ لیکن بعض دکانداروں نے بتایا کہ ان کے ہاں یہ کمبل آٹھ سو روپے میں بھی گاہک آسانی سے خرید لیتا ہے۔ فر والے کمبل جو زیادہ ملائم اور اچھے رنگوں کے علاوہ ڈیزائن دار اور ملٹی کلر ہوتے ہیں، ان کی قیمت جاپان کے اونی کمبلوں سے زیادہ بتائی گئی۔ یہ کمبل 1200 روپے کا فروخت کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جاپان کے پرانے کمبلوں میں سب سے مہنگا آئٹم خرگوشی کمبلوں کے نام سے مارکیٹ میں مشہور ہے۔ یہ نرم و ملائم اور گرم بھی زیادہ بتائے جاتے ہیں۔ دکاندار ان کمبلوں کو خرگوشی کہہ کر فروخت کرتے ہیں اور سنگل کمبل کی قیمت 1400 روپے تک وصول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
لنڈا بازار کے تاجروں نے دکانوں پر دستیاب کمبلوں میں کورین کمبلوں اور جاپانی کمبلوں کی شناخت اور امتیاز بتاتے ہوئے کہا کہ کورین کمبلوں میں شوخ اور آنکھوں کو چبھنے والے رنگ استعمال ہوتے ہیں، جبکہ جاپان والے خواب گاہوں کی طرح ہلکے رنگوں کے کمبل استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے دونوں ملکوں سے درآمد کئے گئے کمبل سائز اور وزن کے علاوہ رنگوں کے حوالے سے بھی صاف پہچانے جا سکتے ہیں۔ تاہم ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں ممالک سے آنے والے بنڈل جب کھولے جاتے ہیں تو ان میں ڈبل بیڈ پر استعمال ہو سکنے والے کمبل اکا دکا ہی نکلتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو لنڈا بازار کے سروے کے دوران معلوم ہوا کہ انگلینڈ سے بھی پرانے استعمال شدہ کمبل درآمد ہوتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم از کم لاہور کے لنڈا بازار میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کمبلوں کے معیار اور قیمت دونوں کو زیادہ بتایا گیا۔
سعید احمد نامی ایک دکاندار کے بقول وہ عام کمبل کی قیمت 500، 600 روپے وصول کرتا ہے، جبکہ ڈبل تہہ والے سنگل بیڈ کے کمبل کی قیمت ایک ہزار روپے لیتا ہے۔ اس میں دس سے بیس فیصد اس کا نفع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بیس فیصد تک تھوک کا کاروباری بھی اپنا نفع وصول کرتا ہے۔ جبکہ تقریباً اتنا ہی نفع درآمد کنندہ بھی وصول کر چکا ہوتا ہے۔ لیکن اتفاق ہے کہ لاہور میں کوئی درآمد کنند نہیں بلکہ درآمد کنندگان زیادہ تر کراچی بیٹھتے ہیں، جو جاپان، کوریا اور دوسرے ممالک سے لنڈے کی مختلف اشیا درآمد کرتے ہیں، جن میں پرانے کمبلوں کی آئٹم بھی شامل ہوتے ہیں۔ لنڈا بازار کے تاجروں کے مطابق کمبل کسی بھی ملک سے الگ آئٹم کے طور پر درآمد نہیں کئے جاتے البتہ یہ خریدوفروخت کے حوالے سے غالباً سب سے اہم آئٹم بن چکا ہے۔ انجمن تاجران لنڈا بازار کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم بادشاہ نے اس بارے میں ’’امت‘‘ کو بتایا کہ لاہور میں لنڈا بازار کا کاروبار وقت کے ساتھ ساتھ سکڑتا جارہا ہے اور نولکھا بازار کا بیشتر حصہ اب نئی مصنوعات کی دکانوں پر مشتمل ہے، لیکن اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ لاہور کے نوے فیصد لوگ لنڈے کا کوئی نہ کوئی آئٹم ضرور استعمال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کمبلوں کی خریداری سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب سے اہم آئٹم ہے کیونکہ مارکیٹ میں نئے کمبلوں سے یہ کمبل ہر حوالے سے بہتر ہوتے ہیں اور شاید یہی آئٹم پرانا ہونے کے باوجود مہنگا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ لاہور کا لنڈا بازار صارفین کی تعداد کے اعتبار سے کراچی کے لنڈا بازار سے بھی بڑا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ یہ عام، غریب اور متوسط طبقے کے سفید پوش لوگوں کو سستے مگر معیاری ملبوسات فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ حکومت دیگر بنیادی ضروریات حتیٰ کہ سفری سہولیات کیلئے تو سبسڈی دیتی ہے مگر لباس کو لنڈے میں بھی مہنگا کر دینے کی حکمت عملی پر چل رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جن ممالک سے یہ کمبل لائے جاتے ہیں وہاں بھی تمام ادائیگیاں ڈالروں اور یورو وغیرہ میں کی جاتی ہیں، جبکہ پاکستان میں کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس بھی غیر ملکی کرنسی میں ادا کئے جاتے ہیں، یہ ہمارے لئے بڑا مسئلہ ہے۔
’’امت‘‘ کو مختلف تاجروں سے بات چیت کے دوران یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پچھلے سال کمبلوں کے جن بنڈل کی قیمت 20 سے 22 ہزار روپے تک تھی اب اس سال 28 سے 29 ہزار تک پہنچ گئی ہے، جس سے کمبلوں کی قیمتیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ تاجروں سے گفتگو میں معلوم ہوا کہ درآمد کنندگان کو کمبل 100 سے ڈیڑھ سو روپے اور تین سو روپے میں پڑ جاتا ہے، جبکہ بعدازاں عام صارف تک یہ مختلف قیمتوں میں پہنچتا ہے۔ تاجروں نے یہ بھی بتایا کہ کمبلوں کے بنڈل کو اسٹیم دینے کے اخراجات بھی 700 روپے سے 1000 روپے ہو گئے ہیں جس سے مجموعی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ٭پانی کمبل ایک ہزار روپے تک فروخت ہو جاتا ہے۔ ان
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More