قائد آباد بم دھماکے کی دو پہلوئوں سے تحقیقات شروع

0

امت رپورٹ
تحقیقاتی اداروں نے قائدآباد بم دھماکے کی تفتیش دو پہلوؤں پر شروع کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ کی علیحدگی پسند تنظیم جئے سندھ متحدہ محاذ یا القاعدہ سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کے دہشت گرد ملوث ہوسکتے ہیں۔ سی ٹی ڈی سمیت دیگر اداروں نے شواہد اکٹھے کررہے ہیں، لیکن تاحال ملوث دہشت گردوں کا سراغ نہیں ملا ہے۔ دھماکے سے چند منٹ قبل اسی مقام کے قریب سے جشن میلادالنبی کی ریلی گرزی تھی، ذرائع کے بقول یہ ریلی بھی ہدف ہوسکتی تھی۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دونوں دیسی ساختہ بم آئی ای ڈی ڈیوائس سے منسلک تھے۔ پہلا دھماکہ نصف کلو بارودی مواد کا تھا۔ جبکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ نے دوسرا بم پھٹنے سے پہلے ناکارہ بنادیا، جو 2 کلو وزنی تھا۔ دہشت گرد اس بم کو وہاں آنے والے سیکورٹی اہلکاروں پر استعمال کرنے میں ناکام رہے۔ بروقت ریسکیو کارروائی سے جانی نقصان کم ہوا۔ واقعہ میں دو افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 10 زخمیوں کو بروقت جناح اسپتال پہنچایا گیا، جہاں فوری طبی امداد دے کر ان کی جانیں بچالی گئیں۔ ذرائع کے مطابق جمعہ کی شب قائد آباد پر بم دھماکے بعد ہفتے کو کراچی کے مختلف علاقوں سے نکلنے والے چپ تعزیے کے جلوسوں کی سیکورٹی مزید سخت رکھی گئی تھی۔ جبکہ 12 ربیع الاول کو جشن عید میلاالنبی کے مرکزی جلوس اور حسن اسکوائر پر آئیڈیاز 2018ء کے موقع پر بھی غیر معمولی سیکورٹی اقدامات کئے جائیں گے۔واضح رہے جمعہ کی شب پونے گیارہ بجے قائد آباد پل کے نیچے لنڈے کے کپڑوں اور فروٹ کے ٹھیلوں کے قریب زور دار بم دھماکہ ہوا تھا۔ فوری طور پر پولیس اور رینجرز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر جائے وقوعہ کو سیل کردیا تھا۔ جبکہ زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق جمعہ کو رات گئے تک اور ہفتے کو بھی تحقیقاتی ٹیمیں جائے وقوعہ پر شواہد جمع کرتی رہیں اور عینی شاہدین سے معلومات کی جاتی رہیں۔ تاہم تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ تحقیقاتی اداروں سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک جو شواہد ملے ہیں، ان سے لگتا ہے کہ دھماکے میں علیحدگی پسند تنظیم جئے سندھ متحدہ محاذ ملوث ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل حیدرآباد میں جئے سندھ قومی محاذ کے عسکری ونگ جئے سندھ متحدہ محاذ کے اہم رہنما شبیر ملاح نے گرفتار دیدی تھی اور دوران تفتیش پولیس بتایا تھا کہ ان کی تنظیم کو شفیع برفت بیرون ملک سے لیڈ کررہا ہے اور افغانستان سے ان کی تنظیم کو سپورٹ مل رہی ہے۔ جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس ان کے کارکنوں کو دہشت گردی کی تربیت دے رہی ہے۔ ان دہشت گردوں کو سندھ بالخصوص کراچی میں کارروائیوں کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق شبیر ملاح نے بعض دہشت گردوں کی نشاندہی بھی کی تھی۔ جس کے بعد کراچی کے اطراف کے علاقوں گھگھر پھاٹک، پپری، گلشن حدید اور دیگر جگہوں پر کارروائی کرکے سیکورٹی ادارے کئی افراد کو گرفتار کرچکے ہیں، جبکہ سندھ بھر میں کریک ڈاؤن جاری ہے۔ جس پر جمعہ کی صبح سندھی قوم پرستوں نے ملیر پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا تھا، اس دوران قومی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قائد آباد پل کے نیچے سے داؤد چورنگی تک ٹھیلے لگتے ہیں اور وہاں شام کے بعد سے بہت زیادہ رش زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دہشت گرد دو بم رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ ایک پانچ سو گرام وزنی بم ٹھیلے کے قریب رکھا گیا تھا۔ جس میں بارودی مواد کے ساتھ نٹ بولٹ، کٹ اسکرو، کیلیں اور بیرنگ کی گولیاں ڈالی گئی تھیں۔ جبکہ اسی طرح کا دوسرا بم اسٹیل کی بالٹی میں رکھا گیا تھا، جو پھٹنے والے بم سے چار گنا وزنی تھا۔ تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر وہ بھی پھٹ جاتا تو بہت زیادہ جانی نقصان ہوتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب سے سندھ اور بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے بڑوں کا افغانستان میں موجود القاعدہ، داعش، لشکر جھنگوی العالمی اور ٹی ٹی پی سے الحاق ہوا ہے۔ علیحدگی پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کو بھی افغانستان میں تربیت دی جارہی ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ سندھی قوم پرست تنظیموں کے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف ردعمل دیا گیا ہو۔ تحقیقاتی اداروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں گرفتار القاعدہ کے ایک دہشت گرد نے دوران تفتیش انکشاف کیا تھا کہ وہ القاعدہ کا سہولت کار ہے اور القاعدہ کا ایمن الظواہری کے بعد تیسرے نمبر کا مطلوب دہشت گرد خالد مکاشی آج کل کراچی میں موجود ہے اور کراچی میں بڑی کارروائی کی جاسکتی ہے، جس کے بعد شہر میں سیکورٹی اداروں کو ہائی الرٹ کرکے خالد مکاشی کی گرفتاری کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نے شہر میں کارروائیاں تیز کردی تھیں جبکہ جمعہ کے روز مساجد، مدارس، امام بارگاہوں اور دیگر حساس جگہوں پر سیکورٹی سخت رکھی گئی تھی۔ تاہم رات کو قائد آباد پل کے قریب عین اس سڑک کے قریب دھماکہ ہوا، جہاں سے چند منٹ قبل جشن میلاد النبی کی ریلی گزری تھی۔ یہ ریلی بھی ہدف ہوسکتی تھی۔ سیکورٹی ذرائع کے بقول دہشت گردوں کی جانب سے پہلے کم شدت کے دھماکے کے بعد دوسرے بڑے دھماکے کی ٹیکنیک کو اپنایا گیا تھا، لیکن انہیں دوسرا دھماکہ کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ جبکہ دھماکے کے بعد وہاں آنے والے سیکورٹی اہلکار بھی محتاط تھے، جبکہ عوام کو بھی جائے وقوعہ سے دور رکھا گیا۔ جب بم ڈسپوزبل اسکواڈ نے علاقے کی سرچنگ کی تو اسٹیل کی بالٹی میں برآمد بم برآمد ہوا تھا۔ یہ ٹائم ڈیوائس بم تھا، جس کو ریڈیو پاکستان کی عمارت کے قریب واقع گراؤنڈ میں ناکارہ بنایا گیا۔ ذرائع کے مطابق سیکورٹی اداروں نے دھماکے کے بعد رات بھر کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک کے سابقہ علاقوں شیرپاؤ کالونی، گلشن بونیر، مسلم آباد، نیو مظفرآباد، قائدآباد اور سندھ کی کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں کے سابقہ نیٹ ورک کے علاقوں پپری، گلشن حدید، اسٹیل ٹاؤن کے اطراف، گھگھر پاٹک کے اطراف کے علاقوں میں سرچ آپریشن کرکے کئی مشکوک افراد کو حراست میں لیا تھا، جن سے تفتیش کی جارہی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More