ہدیہ لینے دینے کے آداب

0

ہدیہ لینے اور دینے کا رواج ہمارے معاشرے سے بالکل ختم ہی ہو گیا ہے۔ صرف شادی بیاہ کے موقع پر جو تحفے تحائف یا نقد دیا جاتا ہے، اس کا نام ہدیہ نہیں ’’نیوتہ‘‘ ہے۔ ہدیہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ تحفہ جو محبت کی وجہ سے کسی کو دیا جائے (اور دے کر بھول جائے) جبکہ نیوتہ میں سب لوگوں کو اور خاص کر عورتوں کو پوری طرح یاد ہوتا ہے کہ کس نے ہمارے یہاں شادی کی تقریب میں کیا دیا تھا؟ بعض خاندانوں میں تو باقاعدہ فہرست بنائی جاتی ہے اور نیت یہ ہوتی ہے کہ نیوتہ دینے والے کے ہاں جب کوئی تقریب ہو گی تو ہدیہ دیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ پیسے یا تحفہ ان کے ذمے قرض ہے۔
اب ان کے ہاں کوئی تقریب ہوئی تو فہرست نکال کر دیکھا جاتا ہے کہ کتنے پیسے دیئے تھے۔ زیادہ دیتے ہوئے تو نفس کہتا ہے کہ زیادہ کیوں دوں؟ برابر دینا اور کم دینے میں ناک کٹتی ہے۔ اب فرض کیجئے کہ ایک شخص کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ برابر کا نیوتہ دے تو اعتراضات شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر کم دے تو چونکہ اس کی صورت قرض کی ہو گئی ہے، اس لیے ایسے ہدیے کا لین دین قرآن کریم کی اصطلاح میں ’’سود‘‘ ہو جائے گا۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے۔
ترجمہ: ’’اور یہ جو تم ربا (سود) دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیں ہے۔‘‘ (سورۃ الروم: آیت 38)
اس آیت میں ’’ربا‘‘ کے لفظ سے یہی ادلے بدلے کا لین دین ہے۔ جو نیوتہ کہلاتا ہے۔ یہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ یہ شخص ہماری تقریب میں اتنا ہی دے یا اس سے زیادہ دے۔ اس طرح جو نیوتہ کے طور پر دیتے ہو، حق تعالیٰ کے نزدیک اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ (اصلاحی خطبات ج۔20۔ ص191)
آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تھادوا تحابوا‘‘ یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو (اس طرح) محبت بڑھائو۔ مطلب یہ ہے کہ آپس میں ہدیے دیا کرو، تمہارے درمیان محبت بڑھے گی۔ ایک اور حدیث میں رسول اکرمؐ سے حضرت ابو ہریرہؓ آپؐ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں۔
ترجمہ: ’’اے مسلمان عورتو! تم اپنی پڑوسن کے معمولی تحفے کی وجہ سے اسے حقیر مت سمجھو، خواہ وہ بکری کا کھر ہی (کیوں نہ) ہو۔‘‘
آج ہمارے معاشرے میں پڑوسیوں کو صرف محبت کے جذبے سے ہدیہ دینے کا رواج ختم ہی ہو گیا ہے۔ الاماشاء اللہ اور اگر آپ عقیقے یا ختنہ وغیرہ کی تقریب میں کسی کو بکری کا کھر بھیج دیں تو وہ اس کو اپنی توہین سمجھے گا۔ عہد نبویؐ میں تو پورا معاشرہ محبت و ایثار کا معاشرہ تھا۔ وہاں بکری کے کھر سے بھی محبت بڑھتی تھی۔ کھر سے مراد معمولی تحفہ ہے۔
ہمارے بزرگوں کے ہدیے
ہدیہ دینے کا ایک اہم اصول اس حدیث میں یہ بیان فرمایا، جو ہمارے معاشرے میں بالکل بھلا دیا گیا ہے۔ ہدیہ دیتے وقت یہ سوچنا چاہئے کہ ایسی کونسی چیز ہدیہ میں دی جائے، جس سے ہدیہ لینے والے کو راحت اور خوشی ہو گی۔ آج کل ہوتا یہ ہے کہ تقریبات میں رسم ہوگئی کہ ہر شخص مٹھائی کا ڈبہ لے کر آرہا ہے۔ اب مٹھائی کے بجائے کیک لینے لگے ہیں۔ اب گھر میں مٹھائی یا کیک کے ڈبوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ جس میں سے اکثر حصہ ضائع ہی ہوتا ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا معمول تھا کہ کسی نئے آدمی کا ہدیہ قبول نہیں کرتے تھے۔ صرف ان لوگوں کا ہدیہ قبول کرتے تھے جن سے بے تکلفی ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ خالص محبت کی وجہ سے دے رہا ہے۔ دوسرا معمول یہ تھا اور اپنے اصحاب کو ہدایت تھی کہ ہدیہ دینے سے پہلے پوچھ لو کہ کیا چیز ہدیہ میں دینا چاہتے ہیں۔ نقد، یا کوئی چیز۔ اگر وہ چیز ضرورت کی ہوتی تو قبول کر لیتے تھے اور اگر ضرورت کی نہ ہوتی یا نقد دینا چاہتے ہیں تو پوچھ لیتے کتنے کی چیز دینا چاہتے ہیں۔ ان سے فرماتے کہ اتنے پیسے نقد دے دیں۔ فرماتے تھے کہ سب سے اچھا ہدیہ نقد کا ہے کہ آدمی اپنی مرضی سے اپنی ضرورت کی چیز خرید لے۔
عجیب و غریب ہدیہ
تبلیغی جماعت کے ایک بزرگ گزرے ہیں شاہ عبد العزیزؒ۔ راقم کے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیعؒ سے بہت تعلق رکھتے تھے۔ کبھی کبھی ملاقات کے لیے تشریف لاتے تھے۔ مخلص اور فہیم بزرگ تھے۔
ایک مرتبہ تشریف لائے تو کاغذ کا ایک دستہ بطور ہدیہ لے کر آئے اور ایک مرتبہ تو روشنائی کی شیشی لاکر ہدیہ میں پیش کر دی۔ حضرت والد صاحبؒ نے فرمایا کہ دیکھو، اگر کوئی اور ہوتا اور ہدیہ دینے کا ارادہ ہوتا تو مٹھائی کا ڈبہ لے کر آتا۔ اس کے دماغ میں یہ خیال نہ ہوتا کہ میں کاغذ لے جائوں۔
ان بزرگ نے یہ سوچا کہ مفتی صاحبؒ کو لکھنے کے لیے کاغذ کی ضرورت ہوتی ہو گی۔ لکھنے کے لیے کاغذ اور روشنائی لیتا جائوں۔ یہ ان کے کام آئیں گی۔
حضرت مولانا ادریس کاندھلویؒ
بزرگوں کی زیارت بھی بڑی نعمت ہے۔ حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلویؒ ہمارے والد ماجدؒ کے بچپن کے ساتھی تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں ساتھ پڑھا۔ پھر ساتھ پڑھایا۔ دوستی تھی۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ان کی محبت کی سادگی دیکھئے کہ وہ جذبہ محبت میں اپنی کتابوں کے نام بھی حضرت والد صاحبؒ کی کتابوں کے نام پر رکھے۔ مثلاً انہوں نے بھی قرآن کریم کی تفسیر لکھی اور نام وہی رکھا جو حضرت والد صاحبؒ کی تفسیر کا نام ہے یعنی معارف القرآن۔
ان کا قیام لاہور میں تھا۔ ایک مرتبہ والد صاحبؒ سے ملنے دارالعلوم کراچی بھی آئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب دارالعلوم کراچی تک بسیں بھی نہیں آتی تھیں۔ کافی دور بستی میں اتار دیتیں۔ وہاں سے پیدل چل کر دارالعلوم آنا پڑتا تھا یا اپنی گاڑی سے آنا پڑتا تھا۔ وہ ایسے وقت پہنچے جو کھانے کا وقت نہیں تھا۔ حضرت والد صاحبؒ بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ والد صاحبؒ کے پوچھنے پر فرمایا کہ دو دن کا قیام ہے۔ فلاں جگہ پر کھانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ بس ملاقات ہی مقصود تھی۔ ملاقات کے بعد واپس جانا ہے اور بھی بہت سے کام ہیں۔
والد صاحبؒ نے فرمایا: بھائی ایک بات سنو! میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں تمہاری دعوت کروں، کیونکہ تم بہت مدت کے بعد میرے پاس آئے ہو۔ لیکن دعوت کے لیے تمہیں دوبارہ بلائوں تو یہ تمہارے ساتھ عداوت ہو گی، کیونکہ یہاں آنے کے لیے تو آدھا دن چاہئے اور مولوی صاحب! تمہارے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ ایسا کرو کہ میں دعوت پر جتنے پیسے خرچ کرتا اتنے پیسے آپ کو ہدیہ کر دیتا ہوں۔ اس طرح میری خواہش بھی پوری ہو جائے گی اور آپ کو تکلیف بھی نہیں ہو گی۔
چنانچہ والد صاحبؒ نے پچاس روپے جیب سے نکال کر حضرت مولانا کاندھلویؒ کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ انہوں نے بھی وہ پیسے اس انداز میں لیے جیسے ان کو بڑی نعمت مل گئی ہے۔ ان کو لے کر اپنے سر پر رکھ لیا اور فرمایا: یہ تو میرے لیے دعوت سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ (حوالہ بالا)
سبحان اللہ! یہی لوگ جانتے تھے کہ ہدیہ لینے اور دینے کا کیا طریقہ ہے۔ حضرت تھانویؒ فرماتے تھے کہ سب سے زیادہ بابرکت اور پرنور آمدنی کسی مسلمان کا ہدیۂ محبت ہے۔
اشراف نفس
ایک ہدیہ وہ ہے جو ’’اشراف نفس‘‘ کے بعد آتا ہے۔ اشراف نفس کے معنیٰ ’’نفس کا انتظار‘‘ ہیں۔ مثلاً نفس کو انتظار ہے کہ فلاں موقع آرہا ہے یا فلاں شخص آنے والا ہے۔ وہ ہدیہ لایا کرتا ہے۔ وہ آئے گا تو ہدیہ لائے گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو ہدیہ ’’اشراف نفس‘‘ کے بغیر ملے تو اس میں بڑی برکت اور بڑا نور ہے اور جو ہدیہ اشراف نفس کے ساتھ ملے تو اس ہدیے میں برکت نہیں۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 1472 حوالہ بالا)
ایک بزرگ کا واقعہ
اللہ والے کسی حال میں بھی اشراف نفس کا کھانا قبول نہیں فرماتے تھے۔ ایسے ہی ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ دین کے کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ان پر فاقے کی نوبت آگئی۔ کئی دن کا فاقہ ہو گیا۔ مریدین اور شاگردوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہے۔ آواز بھی کمزور ہو گئی۔ ایک شاگرد نے محسوس کر لیا کہ ان کی کمزوری فاقے کی وجہ سے ہے۔ وہ شاگرد مجلس سے اٹھ کر چلے گئے، تاکہ شیخ کے لیے کچھ کھانا لے کر آئیں۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ایک تھال میں کھانا لے کر آگئے اور شیخ کی خدمت میں پیش کیا۔ فرمایا: میں یہ کھانا نہیں کھائوں گا۔ واپس لے جائو۔ جیسے شیخ ویسے شاگرد۔ شاگرد نے بھی کوئی اصرار نہیں کیا۔ فوراً تھال لے کر واپس ہو گئے۔ تھوڑا سا وقت گزار کر وہ تھال دوبارہ لے کر آئے اور عرض کیا کہ حضرت! اب کھالیں۔
شیخ نے کہا: ہاں بھائی! اب لائو۔ شیخ نے کھانا کھایا۔ لوگوں کو حیرت ہوئی کہ پہلے کھانا آپ نے رد فرما دیا۔ دوسری بار آیا تو تناول فرما لیا۔ بات یہ ہوئی کہ جب شاگرد جب مجلس سے اٹھ کر گھر چلا گیا تو دل میں یہ خیال آیا کہ میرا شاگرد کھانا لینے گیا ہے۔ یہی اشراف نفس ہے۔ لیکن جب اسے رد کردیا اور وہ کھانا لے کر واپس چلا گیا تو چونکہ دل میں اس کھانے کا انتظار نہیں تھا، بلکہ دل اس سے ناامید ہوگیا تھا۔ اس وقت یہ حدیث ذہن میں آگئی کہ انتظار کے بعد جو ہدیہ آئے اس میں برکت نہیں ہوتی۔ اس اشراف نفس کی وجہ سے کھانا واپس کر دیا تھا۔ دوبارہ جب آیا تو انتظار اور اشراف نفس کے بغیر آیا ہے۔ اس لیے کھا لیا۔ (حوالہ بالا)
خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More