سو پیاز سوجوتے کھاکر اعظم سواتی مستعفی

0

اسلام آباد(نمائندہ امت/مانیٹرنگ ڈیسک)غریب کی آہ نے اثر دکھا دیا۔ ’’بھینس‘‘ حکمران جماعت کے اہم ستون اور بااثر وفاقی وزیر کو لے ڈوبی۔ سو پیاز اور سو جوتے کھانے کے مصداق اعظم سواتی نے کوئی راستہ نہ ملتا دیکھ کر بالآخراپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ جسے وزیراعظم عمران خان نے بلاتوقف قبول کرلیا اور ہدایت کی کہ وہ اپنے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی تمام ہدایات کی پابندی کریں۔ ذرائع کے مطابق اعظم سواتی نے متوقع نا اہلی سے بچنے کیلئے استعفی دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک روز قبل ہی وفاقی وزیر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کارروائی کرنے کا عندیہ دیا اور چیف جسٹس نے کیس خود چلانے کا اعلان کیا تھا۔جمعرات کے روز وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں بھی اس مسئلے پر گرما گرم بحث ہوئی ،جس کے بعد اعظم سواتی نے وزیراعظم کو کہا تھا کہ اگر آپ کہیں تو میں استعفیٰ دے دوں گا۔ اس سے قبل ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا تھا کہ ناقص کارگردگی دکھانے والے وزراء کو عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ اعظم سواتی کے معاملے پرجے آئی ٹی میں مداخلت نہیں کی۔ بابراعوان نےخود اپنے عہدے سےاستعفیٰ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اعظم سواتی پر الزامات ثابت ہو گئے تو وہ خود استعفیٰ دے دیں گے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اعظم سواتی کے معاملے پر وزیراعظم ہاؤس کے گرد گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر وفاقی وزیر سے استعفی لیا گیا ہے، لیکن اب دیر ہوچکی ، بہت سی چیزیں سامنے آنے والی ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں ایک ملین کے چیک، امریکہ میں کیا گیا فراڈ اور دبئی کے معاملات درج ہیں۔ سینئر صحافی سلیم صافی نے دعوی کیا کہ عمران خان اس وقت خوفزدہ ہیں، کیونکہ جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے والا ہے، اعظم سواتی اور عمران خان کے مابین معاملات بھی سامنے آئیں گے۔دوسری جانب حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ اعظم سواتی اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مستعفی ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس کے ترجمان نےبتایا کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر نے استعفیٰ دے دیا اور کہا ہے کہ جب تک ان کے خلاف سپریم کورٹ میں چلنے والے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک وہ وزارت کا قلمدان اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔وزیر اعظم ہاؤس کے ترجمان کے مطابق اعظم سواتی نے جمعرات کو عمران خان سے ملاقات کی اور اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے کیخلاف مقدمے کو خود لڑنا چاہتے ہیں۔ بعد ازاں میڈیا سے مختصر گفتگو میں اعظم سواتی نے بتایا کہ کسی قلمدان کے بغیر اپنا کیس لڑوں گا ، اخلاقی برتری کے لیے استعفیٰ دیا ہے اور وزیراعظم نے بات مان کر استعفیٰ قبول کرلیا ہے۔اس حوالے سے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی افتخار درانی کا کہناتھا کہ ہم طاقت ور اور ظالم کو قانون کے دائرے میں لا رہے ہیں، اعظم سواتی کی استعفے کی خبر میں نے میڈیا کو دی تھی، وہ کابینہ کے ممبر نہیں، ان کا استعفیٰ منظور ہو گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن کے پاس بیچنے کو کچھ نہیں وہ منجن کی تلاش میں ہیں۔جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے اسے خود احتسابی کا کلچر قرار دیا۔ ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی وہ دوسرے وزیر ہیں جنہوں نے انتہائ عمومی تحقیقات پر بھی استعفیٰ دےدیا، اس ملک میں سزا یافتہ لوگ بھی عہدوں سے چمٹے رہتے تھے۔ عمران خان نے خوداحتسابی کا جو کلچر سیاست میں متعارف کرایا اس کی مثال انتہائ جدید جمہوری ممالک میں ہی ملتی ہے۔ یہی روایات نئے پاکستان کانیا رخ ہیں۔واضح رہے کہ ایک روز قبل اسلام آباد آئی جی تبادلہ کیس میں سپریم کورٹ نے اعظم سواتی کا معافی نامہ مسترد کردیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شعور اس وقت آئے گا جب سزا ملے گی، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عدالت خود ٹرائل کرے گی، یہ بھی دیکھے گی کہ نیب قانون کے تحت کیا کارروائی بنتی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے یہ بھی کہا کہ ایک فون کال پر وزیراعظم نے آئی جی کا تبادلہ کردیا، کیوں نہ وزیراعظم کو بلا کر وضاحت لی جائے۔ عدالت نے اعظم سواتی کا پیسہ ڈیم فنڈ کیلئے لینے سے بھی انکار کردیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک ارب پتی آدمی ایسے لوگوں سے مقابلہ کررہا تھا جن کے پاس دو وقت کی روٹی کھانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا رعایا سے ایسا سلوک کرتے ہیں؟، بھینسوں کی وجہ سے کیا حاکم خواتین کو گرفتار کرواتا ہے؟، کیوں نہ اعظم سواتی کو ملک کیلئے مثال بنائیں۔چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا آئی جی صاحب آپ نے اب تک اس معاملے پر کیا کیا؟ یہ آپ کی ایک ماہ کی کارکردگی ہے؟ نئے آئی جی نے آتے ہی سرنگوں کر دیا ہے۔اس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا سر یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کوئی زیر التوا نہیں تھا، آپ کو دیکھنا تھا اس معاملے میں کیا کرنا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پوچھا تحریک انصاف نے اب تک اعظم سواتی کے خلاف کیا ایکشن لیا ؟ اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا نیب قوانین کے تحت معاملہ نہیں آتا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا پھر آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت لڑائی کریں، کیا اعظم سواتی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں ؟ ان کے پیسے ہمیں ڈیم فنڈز کے لیے بھی نہیں چاہئیں۔یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزیر اعظم سواتی کا ’کام نہ کرنے اور ان کا فون نہ سننے کی وجہ سے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو تبدیل کردیا تھا ،تاہم سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کا یہ زبانی حکم معطل کر دیا تھا اورتحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنائی تھی،جس نے وفاقی وزیر کے پڑوسیوں کے ساتھ تنازع میں بطور وزیر ان کے مس کنڈکٹ کا تعین کرنا تھا۔عدالت نے جے آئی ٹی کو 14 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا ،جبکہ اعظم سواتی اور ان کے بچوں کے اثاثے اور ٹیکس معاملات دیکھنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔جے آئی ٹی نے اعظم سواتی کے علاوہ وزیر مملکت داخلہ کو بھی شامل تفتیش کیا اور 17 نومبر کو ایک سربمہر عبوری رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی۔بعدازاں 19 نومبر کو حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی، جس میں اعظم سواتی اور ان کے ملازمین کو فارم ہاؤس پر جھگڑے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ واقعے کے اگلے دن ہی وزیر مملکت برائے داخلہ اور ایس ایس پی آپریشنز اعظم سواتی کے گھر گئے، پولیس اعظم سواتی کے خاندان کے ساتھ مل گئی اور اس واقعے کی ایماندارانہ تفتیش نہیں کی ،جبکہ پولیس افسران نے جان بوجھ کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔رپورٹ کے مطابق 30 اکتوبر کو فارم ہاؤس تنازع کے نتیجے میں گرفتار ہونے والے نیاز علی کی ضمانت ہوگئی اور اعظم سواتی کے بیٹے نے کہا کہ انہیں ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں ،جس کے بعد معاملہ راضی نامے سے حل کر لیا گیا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ نیاز علی نے بتایا کہ اس کے گھر جرگہ آیا تھا، بطور پختون وہ جرگے کو انکار نہیں کرسکا اور ملزمان کو معاف کردیا۔رپورٹ کے مطابق اعظم سواتی کی اہلیہ نیاز علی کے گھر اس کے بچوں کے لیے کپڑے لے کر آئیں، نیاز علی کے خاندان کو رقم کی پیش کش بھی کی گئی جو اس نے ٹھکرا دی اور یہ سب سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد ہوا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیاز علی خاندان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا جب کہ بطور وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی سے خصوصی طور پر نرم رویہ اختیار کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق مقدمے کی تفتیش پولیس کے جونیئر افسران نے کی، پولیس افسران نے جے آئی ٹی کو بتایا یہ عام نوعیت کا کیس تھا اس لیے سنجیدہ نہیں لیا گیا۔جےآئی ٹی کی 5 جِلدوں پر مشمل رپورٹ میں کہا گیا کہ سواتی خاندان کا مؤقف جھوٹ پر مبنی،بے بنیاد اور تضادات سے بھرپور ہے۔جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے گزشتہ روز آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے تھے کہ اعظم سواتی کے خلاف عدالت آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کارروائی کرے گی۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More