مکی شہزادے کا بوسیدہ لباس

0

جنگ ختم ہو چکی تھی۔ مسلمان فتح سے ہمکنار ہو چکے تھے۔ قیدیوں کو گرفتار کر کے ان کی مشکیں کسی جا رہی تھیں کہ ان کا گزر اپنے بھائی کے پاس سے ہوا، جو قیدی بنا لیا گیا تھا۔ ایک مسلمان انہیں باندھ رہا تھا۔ اسے مخاطب کرکے فرمایا: دیکھو اسے اچھی طرح باندھنا، اس کی ماں بڑی مالدار عورت ہے، اس کی رہائی کے بدلے میں اچھی خاصی دولت ملے گی۔ جب بھائی نے سنا تو کہنے لگا تم کیسے بھائی ہو جو ایسی باتیں کر رہے ہو؟ فرمایا میرے بھائی تم نہیں، بلکہ وہ ہے جو تمہیں باندھ رہا ہے۔
اپنے سگے بھائی سے اس انداز میں بات کرنے والی یہ عظیم شخصیت کون ہیں؟ آئیے ان سے ملاقات کرتے ہیں۔
مکہ مکرمہ میں کوئی شخص ان سے زیادہ حسین و خوش پوشاک اور نازو سے نعمت سے نہیں پلا تھا۔ ان کے والدین کو ان سے شدید محبت تھی، خصوصاً ان کی والدہ خناس بنت مالک نے اپنے مال و دولت کے بل بوتے پر اپنے جگر گوشے کو بہت ناز و نعم سے پالا تھا۔ وہ اپنے زمانے کے لحاظ سے عمدہ سے عمدہ پوشاک پہنتے اور لطیف سے لطیف خوشبو استعمال کرتے۔ امراء کے زیر استعمال حضرمی جوتا جو اس زمانے میں صرف امراء کے لئے مخصوص تھا، وہ ان کے روزمرہ کے کام آتا تھا اور ان کے وقت کا اکثر حصہ آرائش و زیبائش میں بسر ہوتا۔ وہ جس گلی سے گزرتے، وہاں سے اٹھنے والی خوشبو اس بات کی گواہی دیتی کہ مصعب یہاں سے گزر گیا ہے، جو کپڑا ایک بار پہن لیتے، دوبارہ پہننے کی نوبت نہ آتی کہ ان کے ہاں نت نئے کپڑوں کی کوئی کمی نہ تھی۔
حق تعالیٰ نے جہاں انہیں اتنی نعمتوں سے نوازا تھا، وہاں ان کے دل کو بھی نہایت صاف و شفاف بنایا تھا، جس پر توحید کا ایک عکس پڑنے کی دیر تھی اور پھر توحید کا جھنڈا اس انداز میں تھاما کہ اس نے انہیں ہر چیز سے بے نیاز کر دیا اور وہ زندگی کے حقیقی مقصد کو جان کر اس کے حصول میں لگ گئے اور اب حال یہ تھا کہ نرم و نازک لباس میں ان کے لئے کوئی جاذبیت نہ رہی۔ انواع و اقسام کے کھانے ان کی نظروں میں ہیچ ہو گئے، نشاط افزا عطریات کا شوق ختم ہو گیا اور دنیاوی عیش وعشرت سے بے نیاز ہو گئے۔ اب ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد تھا۔ یہ وہ مقصد تھا، جسے جلوئہ توحید نے ان کے دل میں روشن کیا اور تمام فانی ساز و سامان سے بے پروا کر دیا تھا۔
جب ان کے مشرف بہ اسلام ہونے کی خبر ان کی والدہ اور ان کے اہلِ خاندان کو ہوئی۔ توپھر کیا تھا ماں اور خاندان والوں کی ساری محبت نفرت میں بدل گئی، سارے ناز و نعم ختم ہو گئے اور ’’مجرم توحید‘‘ کو مصائب و آلام کے حوالے کر دیا گیا۔ اہل خاندان کے ظلم وستم سے تنگ آکر جناب رسالت مآبؐ
کے حکم پر حبشہ کی طرف ہجرت کی، ہجرت کے مصائب نے ان کی ظاہری حالت میں نمایاں فرق پیدا کر دیا تھا۔ اب نہ وہ رنگ باقی رہا تھا اور نہ وہ روپ چہرے پر دکھائی دیتا تھا، حبشہ میں کچھ ہی دنوں بعد اہلِ مکہ کی اسلام قبول کرنے کی افواہ سن کر وطن کو واپس لوٹ آئے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More