نامۂ اعمال میں کوئی ایک نیکی!

0

کراچی میں اسٹاک بروکرز، اسٹاک ایکسچینج کے عہدیداروں، صنعت کاروں اور تاجروں کے وفود سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت ایک مختلف سوچ لے کر آئی ہے، ہم تجارت اور سرمایہ کاری کو تحفظ دیں گے۔ درآمدات و برآمدات میں فرق کم کریں گے۔ کاروبار کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ کرنے والوں کو آئندہ ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ کرپشن کا مکمل خاتمہ کر کے رہیں گے۔ جلد مشکل حالات سے نکل آئیں گے۔ وفاقی حکومت صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں حکومت سندھ کے ساتھ تعاون کرتی رہے گی۔ تجاوزات آپریشن میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی، متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔ حکومت صنعتوں کو فروغ دے کر بے روزگاری کا خاتمہ کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے برسراقتدار آتے ہی اپنی حکومت کی سو دنوں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر آئندہ اقدامات اور نااہل وزیروں، مشیروں کو فارغ کر کے نئے لوگوں کو مقرر کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ لیکن اب تحریک انصاف کے ذرائع خبر دے رہے ہیں کہ عمران خان اچھی کارکردگی نہ دکھانے والے وفاقی وزرا کو ان کی ناتجربہ کاری کے باعث محض متنبہ کر کے چھوڑنے اور انہیں مزید تین ماہ کی مہلت دینے پر غور کررہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے قریبی رفقا سے مشاورت کی تو انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ سو دن تو سرکاری نظام کو سمجھنے، سمت درست کرنے اور منصوبہ بندی میں لگ جاتے ہیں، لہٰذا اتنی کم مدت کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر کابینہ میں ردوبدل کرنے سے سیاسی سطح پر کوئی اچھا پیغام نہیں جائے گا اور پارٹی کے اندر بھی بددلی پھیلے گی۔ تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزرا کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور اچھی حکمرانی کے لیے نئی حکمت عملی اور منصوبہ بندی پر عمل کیا جائے گا۔ سو دنوں میں وفاقی وزیروں نے جو کچھ سیکھا ہے، اس کی روشنی میں ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ سو دنوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا مشورہ وزیراعظم عمران خان کو کسی غیر یا دشمن نے نہیں دیا تھا، یہ ان کی ذاتی عقل و دانش کا فیصلہ تھا۔ اب اگر ان کی سوچ نے اس معاملے میں بھی یوٹرن لیا ہے کہ اتنے دن تو سرکاری نظام کو سمجھنے اور سمت درست کر کے منصوبہ بندی میں لگ جاتے ہیں تو یہ بات انتخابات سے پہلے اور حکومت کی تشکیل کے وقت عمران خان کی سمجھ میں کیوں نہ آئی، جبکہ وہ بزعم خود بڑے دور اندیش سیاستدان ہیں اور ان کے پاس ملک میں تیز رفتار تبدیلی کا پورا منصوبہ موجود تھا۔ اب بھی عالم یہ ہے کہ حکومت کی کوئی سمت واضح ہے نہ قبلۂ درست، تو منصوبہ بندی کب اور کیسے ہو گی، پھر اس پر عملدرآمد کتنے دنوں میں اور کن کے ذریعے شروع ہو گا؟ وزیراعظم عمران خان سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا یہ مطالبہ بالکل حق بجانب ہے کہ وہ ملک کے عام شہریوں کو معمولی سہولت بھی فراہم نہیں کر سکتے تو کم از کم چھ ماہ تک ان کی مشکلات میں اضافہ ہی نہ کریں۔ موجودہ حکومت نے اپنے ابتدائی تین ماہ کے دوران ہی عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اب تک قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ممالک سے واپس لانے کا کوئی میکنزم سامنے نہیں آیا ہے۔ پچاس لاکھ گھر بنا کر لوگوں کو چھت فراہم کرنے والی حکومت کے دور میں سپریم کورٹ سے تجاوزات خاتمے کے حکم کی آڑ میں لاکھوں افراد کا روزگار چھینا جارہا ہے اور اب کہا جارہا ہے کہ ان کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لیے کمیٹی قائم کی جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے سو سے زیادہ دنوں میں سیکھا کچھ نہیں ہے۔ سابقہ حکومتوں کی طرح عوام کو صرف وعدوں سے بہلانے کی کوشش کی ہے۔ جب سیکھا ہی کچھ نہیں تو آئندہ اس سے بہتری کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ملک کو شدید مہنگائی، بے روزگاری اور کرنسی کے بحران سے دوچار کرنے والی حکومت وہی گھسی پٹی بات کہہ رہی ہے کہ اسے اقتصادی بدحالی سابقہ حکومت سے ورثے میں ملی ہے تو اس کے پاس پھر نئی کیا پالیسی اور حکمت عملی ہے۔ وہ ملک کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنا کر نئے پاکستان کا اپنا نعرہ کب اور کیسے پورا کرے گی؟ حکمرانوں کی ہمیشہ سے یہ عادت ہے کہ وہ قومی زندگی کے جس شعبے میں جائیں، وہاں کے لوگوں سے نت نئے وعدے کر کے اور ان کی ضروریات کو اولین ترجیح قرار دے کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈالر کو ایک سو چالیس روپے تک پہنچا کر حکومت نے درآمدات و برآمدات کے نرخوں کا جو عدم توازن پیدا کیا ہے اور جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے، اس کا ازالہ کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ ایک کروڑ افراد کو روزگار دینے کا وعدہ کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت کے سربراہ نے گزشتہ روز کراچی میں تاجروں اور صنعت کاروں سے کہا کہ وہ آگے آئیں، سرمایہ کاری کریں اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کریں، انہوں نے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے اپنی ملاقات کا حوالہ دے کر کہا کہ انہوں نے نجی شعبے کو منافع کے مواقع فراہم کر کے اپنے ملک کی معیشت پر قابو پایا ہے۔ بقول ان کے نجی سرمایہ کاری اور نفع اندوزی سے عوام کو روزگار ملتا ہے۔ یہی بات وہ تعمیراتی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے منافع بخش کاروبار کو فروغ دیں تو تحریک انصاف کا پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا۔ جو لوگوں کو یقینا مفت یا سستے نہیں، مہنگے ملیں گے۔ جب سارا کام نجی شعبے ہی کو کرنا ہے تو وفاقی کابینہ کے ہاتھیوں کو پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ کراچی میں سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور تاجروں کے وفود سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے جو کچھ کہا اس میں انہوں نے کم از کم نو مرتبہ ’’گا، گی، گے‘‘ یعنی مستقبل کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ اس میں کوئی ایک بات بھی ایسی نظر نہیں آئی کہ ہم نے اب تک صحیح سمت متعین کر کے اور کچھ نہیں کیا تو کم از کم مہنگائی کو روک دیا ہے، لیکن موجودہ حکومت کے نامہ اعمال میں کوئی معمولی بھی نیکی ہو تو اسے بیان کیا جائے۔ قادیانیوں کے مداح نوجوت سنگھ سدھو سے دوستی کی پینگیں بڑھانے والے عمران خان کے لیے بھارتی خفیہ اداروں کے سابق سربراہوں کا یہ اظہار خیال قابل توجہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے بعد ہم عمران خان سے زیادہ توقع رکھ سکتے ہیں۔ بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت کہتے ہیں کہ انہوں نے تیس برسوں میں پرویز مشرف جیسا معقول شخص نہیں دیکھا۔ بھارتی حکومت کو چاہئے کہ اب وہ عمران خان کو وقت اور موقع دے۔ بھارتی خفیہ اداروں کی نظروں میں جنرل پرویز مشرف کیوں معتبر اور معقول ٹھہرے؟ کیا اس لیے کہ انہوں نے بے گناہ افغان باشندوں کو لاکھوں کی تعداد میں شہید کرانے اور امریکا کے مطلوب افراد پکڑ پکڑ کر امریکی حکومت کے حوالے کرنے کا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا تھا، جس کے نتیجے میں پاکستان بدترین دہشت گردی کا شکار رہا۔ اس کے ستر ہزار شہریوں اور فوجیوں کی جانیں ضائع ہوئیں، جبکہ مالی نقصانات کا تو کوئی حساب ہے نہ شمار۔ یاد رہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری اور دیگر الزامات میں مقدمے چل رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور جاسوسی کے دیگر ادارے عمران خان سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More