شیر قالین نہیں، شیر کا جگرا چاہئے

0

بینکنگ کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی عبوری ضمانت میں اکیس دسمبر تک توسیع کر دی ہے۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر آصف علی زرداری کی اپنے قریبی ساتھی انور مجید کے بیٹے عبد الغنی سے ملاقات ہوئی۔ عدالت میں دونوں نے ایک جگہ بیٹھ کر کچھ دیر تک گفتگو کی۔ یاد رہے کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے ساتھ منی لانڈرنگ کیس میں اومنی گروپ کے انور مجید، عبدالغنی مجید، ذوالقرنین، طلحہ رضا اور نمر مجید سمیت دیگر ملزمان بھی بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے۔ تفتیشی افسر نے مفرور ملزمان سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔ اکیس دسمبر تک عبوری ضمانت میں توسیع کے ساتھ ہی عدالت نے کیس کی سماعت بھی اکیس دسمبر تک ملتوی کر دی، جس کے بعد آصف علی زرداری، فریال تالپور اور دوسرے تمام ملزمان حاضری لگا کر بینکنگ کورٹ سے روانہ ہوگئے۔ عدالتی حکم کے باوجود آصف علی زرداری کے ساتھ مالی معاملات میں ملوث ایک اور شریک کار حسین لوائی کو پیش نہ کرنے پر عدالت نے جیل حکام سے رپورٹ طلب کر لی۔ دریں اثنا منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکائونٹس کیس میں پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور مقدمے کے مرکزی ملزم انور مجید کے گھر پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) نے ایف آئی اے سائبر ونگ کے ماہرین کے ساتھ چھاپا مارا اور وہاں سے کئی لیپ ٹاپ سمیت اہم ریکارڈ اپنی تحویل میں لے لیا۔ ایک گواہ پہلے ہی جے آئی ٹی کے پاس ریکارڈ کرائے گئے ایک بیان میں انور مجید کی جانب سے جعلی بینک اکائونٹس استعمال کرنے کے شواہد پیش کر چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو انیس دسمبر تک حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے، جبکہ سمٹ بینک کی جانب سے اومنی گروپ کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے ہدایات جاری کرنے کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔ انور مجید کے گھر پر اس سے قبل بھی چھاپا مارا گیا تھا۔ آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ میں شریک انور مجید، حسین لوائی اور دیگر ساتھیوں پر جو الزامات میں ان کی تحقیق و تفتیش میں غیر ضروری تاخیر سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ احتساب کے نام سے جو کارروائیاں ہورہی ہیں، ان میں چھوٹے مجرموں کو سزائوں سے دوچار کر کے بڑے نامی گرامی مجرموں کو بچانے کی کسی نہ کسی سطح پر پوری کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ لٹیروں کے خلاف ثبوت و شواہد اکٹھے کرنا ہرگز اتنا مشکل کام نہیں کہ انہیں چھوٹ پر چھوٹ ملتی رہے اور ان کی ضمانتوں میں بار بار توسیع ہوتی رہے۔ کیا کسی معمولی چور کے بارے میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسے مجسٹریٹ کی عدالت یا سیشن کورٹ سے اس طرح کی رعایتیں مل جائیں۔ وکیلوں کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کر کے مالی بدعنوانی میں بری طرح لتھڑے ہوئے ملزموں نے قانون اور عدالتوں کے ساتھ جو کھیل شروع کر رکھا ہے، دنیا کے کسی ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
ہم بار بار یہ مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ غیر معمولی حالات میں معمول کے اقدامات سے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ جن لوگوں نے اپنے دور اقتدار میں یا حزب اختلاف میں رہتے ہوئے بھی حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کر کے قومی خزانے کو شدید نقصان سے دوچار کیا ہے، وہ سب جانے پہچانے لوگ ہیں۔ ان کے پاس موجود بے پناہ مال و دولت اور اثاثے اندرون و بیرون ملک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی تفصیلات ملکی و غیر ملکی اداروں اور ذرائع ابلاغ کے توسط سے سامنے آچکی ہیں۔ اسے پرکھنے کی سادہ سی کسوٹی ایک تو یہ ہے کہ اقتدار یا سیاست میں آنے سے پہلے وہ کتنے امیر و کبیر تھے اور بعد میں ان کے پاس دنیا بھر کی دولت کیسے آگئی۔ دوسرے یہ کہ سیاستدان ہوں، نوکرشاہی کے کارندے ہوں یا بڑے بڑے جاگیردار و سرمایہ دار، ان کی آمدنی سے کئی گنا بلند معیار زندگی ہے تو یہ یقینا بے ایمانی اور بددیانتی کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی فلاحی معاشرے میں، بالخصوص اگر وہ مسلم معاشرہ ہو تو امیر و غریب کے درمیان زمین و آسمان کا فرق مٹانے کے لیے ہنگامی قوانین اور اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے بعض مقاصد پورے کرنے کے لیے تو آرڈی نینسوں کے ذریعے قانون سازی کا عندیہ دے رہی ہے، جس کی مخالفت تقریباً تمام کرپٹ عناصر کررہے ہیں۔ نیک نیتی سے زیادہ انہیں اس بات کا خوف لاحق ہے کہ کہیں عوامی مطالبے پر قومی دولت کے لٹیروں کے خلاف کوئی آرڈی نینس نافذ کر کے کارروائی شروع نہ کر دی جائے، جس کی موجودہ حالات میں اشد ضرورت ہے اور جس کی زد میں وہ سب آسکتے ہیں۔ اس طرح بہت جلد اقتصادی بحران پر قابو پاکر غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور وطن عزیز کو سودخور مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں سے کڑی شرائط پر امداد اور قرضے لینے کی ضرورت بھی نہ پڑے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے برسراقتدار آنے سے پہلے قوم کو یہ سنہرا خواب دکھایا تھا کہ ان کی پارٹی معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے پورا ہوم ورک یعنی تیاری کر چکی ہے۔ ملک کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ انہیں درست طریقے سے استعمال کیا جائے تو آئی ایم ایف سمیت کسی کے آگے کشکول گدائی پھیلانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ لیکن اقتدار میں آنے کے چار ماہ بعد بھی صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود کے مطابق معاشی بحالی کے لیے سعودی عرب سے مقررہ رقم تاحال نہیں ملی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھی فوری طور پر رقم نہیں دی ہے، جبکہ چین کا اپنا ایک طریق کار ہے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کا اگلا دور باقی ہے، جس کے بعد کوئی فیصلہ ہو گا۔ ان سب کے باوجود ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان فوری مالی بحران سے نکل چکا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پھر ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب (عمران خان کی زبان میں سونامی) کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟ جس ملک میں شریف و زرداری خاندان اس کے ساتھی پرویز خٹک، راجا پرویز اشرف اور خود وزیراعظم کے کئی ساتھی مقدمات کی زد میں ہوں اور جہاں بڑے ملزموں سے لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کا کوئی یقینی عمل اب تک شروع نہیں ہوسکا اور انہیں ضمانتوں کی سہولتیں حاصل ہوں، وہاں تبدیلی لانے کے لیے صرف بلند بانگ دعوئوں سے کام نہیں چلے گا۔ بڑے کاموں کے لیے قومی زندگی کے ہر شعبے اور ریاست کے ہر ستون میں شیر قالین نہیں، شیر کا جگرا چاہئے۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More