افغان طالبان ملک بھر میں بچیوں کے اسکول کھولیں گے

0

محمد قاسم
افغان طالبان کے کمیشن برائے ایجوکیشن نے آئندہ سال ملک بھر میں بچیوں کے اسکول کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کی جانب سے مشرقی افغانستان میں تجرباتی بنیاد پر کھولے گئے دو اسکولوں میں بڑی تعداد میں طلبا و طالبات نے داخلے لئے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے کمیشن برائے ایجوکیشن کے سربراہ ملا عارف کی ہدایت پر طالبان نے مشرقی صوبہ ننگرہار، لغمان، خوست، کنڑ اور نورستان میں آئندہ سال مارچ میں نئے تعلیمی سال سے بچیوں اور بچوں کیلئے کلاس پانچ تک اور چھٹی سے دسویں تک طالبات کیلئے علیحدہ اسکولوں کے انتظامات شروع کر دیئے ہیں۔ تجرباتی بنیاد پر ننگرہار میں دو اسکول کھولے گئے ہیں، جن میں بڑی تعداد میں طلبا و طالبات نے داخلے لئے ہیں۔ اس ضمن میں طالبان کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں افغان طالبان کو اساتذہ کے ساتھ اجلاس میں طلبا و طالبات کے نصاب کے حوالے سے بات چیت اور کلاسوں کا معائنہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ افغان طالبان کے ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ’’امت‘‘ کو جاری کردہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان کی شوریٰ نے نئے تعلیمی سال کو مشرقی افغانستان، شمالی افغانستان اور جنوب مشرقی افغانستان میں بچیوں کے داخلے کا سال قرار دیا ہے اور 2019ء میں زیادہ سے زیادہ بچیوں کو اسکولوں میں داخل کرایا جائے گا۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان حکومت بچیوں کو تعلیم دلانے میں ناکام رہی ہے۔ افغان حکومت صرف مخلوط نظام تعلیم کو فروغ دینا چاہتی ہے جس سے افغان ثقافت کو تباہ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ لیکن افغان طالبان کے کمیشن برائے تعلیم کی سفارشات پر مرکزی شوریٰ کی جانب سے پورے افغانستان میں سیکنڈری کی سطح پر بچیوں کیلئے علیحدہ اسکولوں کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ جبکہ پرائمری تک بچوں اور بچیوں کے ایک ہی اسکول ہوں گے۔ ان اسکولوں میں افغان وزارت تعلیم کے نصاب کے ساتھ دینی تعلیم بھی دی جائے گی، جس میں ناظرہ قرآن اور تجوید بھی شامل ہوگی۔ طالبات کے سیکنڈری اسکولوں میں تمام اسٹاف بھی خواتین پر مشتمل ہوگا۔ ان اسکولوںکی نگرانی طالبان کے کمیشن برائے تعلیم کے مقامی حکام کریں گے۔ ذرائع کے مطابق یکم نومبر سے خوگیانو اور شنوارو میں طالبان کی جانب سے قائم کردہ اسکولوں میں اب تک 200 سے زائد طلبا و طالبات نے داخلہ لیا ہے۔ والدین بخوشی اپنے بچوں بچیوں کو ان اسکولوں میں بھیج رہے ہیں۔ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان کے کمیشن برائے تعلیم کے ذمہ داران اس بات پر غور کررہے ہیں کہ جو لوگ اپنی بچیوں کو اسکول نہیں بجھوائیں گے، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ دوسری جانب تعلیم کے فروغ کیلئے طالبان کے اقدامات کو پوری دنیا میں سراہا جارہا ہے۔ ذرائع کے بقول طالبان کی جانب سے 2019 ء کو تعلیم کا سال قرار دینے پر سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری بڑھ گئی ہے۔ جبکہ کنڑ اور نورستان کی انتظامیہ نے اسکولوں کو طالبان کے حوالے کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مقامی حکومتوں کے ذمہ داران کا خیال ہے کہ اگر سرکاری اسکول طالبان کی نگرانی میں دیدیئے جائیں تو زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی بچیوں کو اسکولوں میں داخل کرائیں گے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں تعلیم کی کم شرح کا ذمہ دار طالبان کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں میں کرپشن کی وجہ سے تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں جبکہ افغانستان کے 60 فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے وہاں صحت اور تعلیم کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری خود اٹھالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ڈسپنسریوں کو طالبان کے حوالے کردیا گیا ہے، جبکہ اسکولوں کو بھی طالبان کے حوالے کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق افغان طالبان امریکہ کے ساتھ معاہدے سے قبل اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں رفاحی کاموں کا سلسلہ بڑھا رہے ہیں۔ ادھر نمروز اور ہلمند میں بنائے جانے والے دو ڈیموں کی سیکورٹی بھی اب طالبان کے حوالے کر دی گئی ہے۔ افغان طالبان اب بالواسطہ طور پر حکومتی امور میں شامل ہورہے ہیں اور انہیں امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب افغان کمیشن برائے صحت اور ایجوکیشن کو بڑے پیمانے پر مقامی لوگوں کی جانب سے امداد بھی مل رہی ہے جبکہ طالبان نے پورے افغانستان کے داخلی راستوں سے ٹیکس جمع کرنا بھی شروع کر دیا ہے، جس سے آئندہ سال بچوں کو مفت کتابیں فراہم کی جائیں گی۔ افغان طالبان کے ان اقدامات سے نہ صرف عوام میں ان کی حمایت بڑھ رہی ہے بلکہ مقامی حکومتوں کی جانب سے جو خلا پیدا کیا گیا ہے، افغان طالبان آہستہ آہستہ اس کو پُر کررہے ہیں۔ طالبان زراعت کے شعبے میں بھی کمیشن بنا رہے ہیں، تاہم اس کمیشن کے قیام سے قبل طالبان نے تجرباتی طور پر دریائے آمو سے قندوز میں داخل ہونے والی ایک نہر کی مرمت کر کے اس کو مقامی آبادی کے حوالے کردیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More