قسمت کا لکھا…

0

ہم ملائیشیا کی ایک بزنس کمپنی کے ڈائریکٹر حاجی غلام علی سولنگی کا ذکر کررہے تھے۔ وہ آج سے سترہ برس قبل اپنے قصبے کی ’’روہڑی سیمنٹ فیکٹری کالونی‘‘ سے خالی ہاتھ سنگاپور اور اس کے بعد ملائیشیا آئے۔ چار سال کے شبانہ روز محنت کے بعد وہ قدرے آسائش کی زندگی گزارنے کے قابل ہوئے تھے۔ وہ ایک ملئی لڑکی کے ساتھ مل کر کوالالمپور کے علاقے ’’جالان کلانگ لاما‘‘ میں سائبر کیفے کے مالک بن گئے۔ مستقبل قریب میں دونوں شادی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے کوالالمپور کے بہتر علاقے میں ایک خوبصورت فلیٹ بھی بک کرالیا تھا۔ اس کے لیے دونوں چالیس، چالیس ہزار رنگٹ بھی ادا کرچکے تھے۔ اب فلیٹ کی معمولی ایک آدھ قسط ہی باقی تھی کہ اچانک علی کی پرسکون زندگی میں ہلچل سی پیدا ہوگئی۔ ان کے کیفے میں دوسروں کا جھگڑا ہوگیا اور اس کے نتیجے میں ان کا جاری بزنس بند ہوگیا۔
ملئی لڑکیاں فطرتاً بے وفا اور دغاباز نہیں ہیں۔ لیکن کبھی مثبت یا منفی مثال کا سو فیصد اطلاق کہیں نہیں ہو سکتا۔ مثل مشہور ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ اس لڑکی کی طبیعت میں اچانک تبدیلی آئی۔ وہ علی کے بجائے اپنی سہیلی کی ہربات ماننے لگی۔ اس نے نہ صرف علی سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا، بلکہ علی کی تمام جمع پونجی بھی اپنے قبضے میں لے لی۔ بک کیا جانے والا فلیٹ اسی کے نام تھا۔
علی ایک مرتبہ پھر زیرو پر آگئے۔ ایک غیر ملک میں ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، وہ کسی چیز پر اپنا حق نہیں جتا سکتے تھے۔ علی، ملائیشیا میں گھر بار اور پرسکون زندگی کے خواب دیکھ رہے تھے جو چکنا چور ہوگئے۔ اب ان کے لیے روزگار کا بھی کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا تھا۔ وہ سوچنے لگے کہ اب انہیں کیا کرنا چاہیے۔ وطن لوٹ جانا چاہیے یا یہیں رہتے ہوئے قسمت آزمائی کی جائے۔ ان کی تعلیم بھی محض بی اے تھی۔ اس لیے انہیں اپنے ملک میں ملازمت ملنے کے بھی امید نہیں تھی۔ وہ ملائیشیا میں رہنے کے دوران نہ صرف ملئی زبان سیکھ گئے تھے، بلکہ ان کی انگریزی بھی بہتر ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ پیٹروناس ٹاور کی تعمیر کے دوران اور سائبر کیفے کے بزنس سے انہیں خاصا تجربہ حاصل ہوا۔ اب وہ کئی پروفیشنل کاروباری اور سیاسی لوگوں سے تعلقات پیدا کرچکے تھے۔ ان کے شناساؤں میں ملئی، چینی اور انڈین لوگ شامل تھے۔
’’دبئی، کویت اور عرب ملکوں کے سخت موسم اور شوخ لوگوں سے ملائیشیا کا موسم اور لوگ زیادہ حلیم ہیں۔ میں نے کسی دوسرے ملک میں جاکر قسمت آزمانے کے بجائے یہیں رہتے ہوئے نئے سرے سے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ علی نے بتایا: ’’کیفے بند ہونے کے سبب ملائیشیا میں کام کرنے کا میرا ویزا بھی ختم ہونے کے قریب تھا۔ اس دوران میں میری ملاقات اپنے ایک پاکستانی شناسا سے ہوگئی۔ وہ یہاں ڈاکٹری آلات اور سرجیکل ٹولز کا بزنس کرتے تھے۔ ان کا ایک پاکستانی پارٹنر الگ ہوکر کوئی دوسرا کاروبار کرنے لگا تھا۔ اس لیے انہیں ایک آدمی کی ضرورت تھی۔ انہوں نے مجھے اپنے کاروبار میں شامل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ میں نے خوشی سے ان کی پیشکش قبول کی اور نیا کام شروع کردیا۔ میرے یہ پنجابی بزنس مین دوست سیالکوٹ اور دوسرے شہروں سے ہول سیل پر ڈاکٹری اور اسپتالوں کا سامان منگواتے تھے۔ انہوں نے ایک فزدا ٹائپ پک اپ میرے حوالے کی۔ میں نے اس میں مختلف چیزوں کے سمپل رکھ کر شہر در شہر، اسپتالوں اور کلینکوں میں جانا شروع کیا۔ کہیں سے بھی مجھے کس چیز کا آرڈر ملتا، میں فون کے ذریعے اپنے بزنس مین دوست کو مطلع کرتا جو میرے باس بن چکے تھے۔ وہ اسی وقت مطلوبہ سامان میسنجر یا کوریئر سروس کے ذریعے ضرورت مند ڈاکٹر اور اسپتال کو روزانہ کردیتے تھے۔ میں ویسٹ ملائیشیا کی گیارہ ریاستوں میں سے ہر ریاست میں ایک مہینہ گزارتا تھا۔ آخری یعنی دسمبر کے مہینے میںکوالالمپور میں رہتا تھا۔ پچھلی مرتبہ جب ہماری ملاقات ہوئی تھی تو اس وقت میں یہی کام کررہا تھا۔
’’پھر آپ نے شادی کا پروگرام کیسے بنایا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میں نے اس کام میں بہت محنت کی اور پیسہ بچایا۔‘‘
علی نے بتایا ’’ملائیشیا میں بزنس کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں چینیوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہاں اسپتال اور وہاں کام کرنے والوں میں چینیوں کی اکثریت ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے نمبر پر انڈین ہیں۔ ان کے ہمدردیاں اپنے چینی بیوپاریوں اور انڈین سامان سے ہے۔ لیکن میں گزشتہ بارہ برس سے اس کاروبار پر خاصا حاوی رہا ہوں۔ اس بزنس کے اسٹیبلش ہونے کے بعد میں نے شادی کا ارادہ کیا۔ میری نظروں میں ایسی کوئی لڑکی نہیں تھی، جس کے ساتھ میری جان پہچان یا دوستی ہو۔ میری ان ٹیچر کے ساتھ فون پر گفتگو کا سلسلہ ضرور جاری تھا، جنہوں نے اپنے خرچ پر مجھے بی اے تک تعلیم دلوائی تھی۔ ان کی باتوں سے مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اپنی بیٹیوں کی جانب سے بہت فکر مند ہوں، ان کی بیٹیوں کی اب تک شادی نہ ہوسکی تھی۔‘‘
’’اچانک مجھے خیال آیا کہ میری نظروں میں دوسری کوئی لڑکی تو ہے نہیں، کیوں نہ میں اپنے اس شفیق استاد کی بیٹی سے شادی کرلوں، جن کے مجھ پر احسانات ہیں، جنہوں نے مجھے تعلیم دلوائی ہے۔ ان کی بیٹی نسرین گو کہ عمر میں مجھ بڑی ہے اور ہمارا بچپن ہی سے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ اس لیے ہم میں سے کسی نے بھی شادی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ لیکن اب میں نے بہت سوچ بچار کے بعد آخرکار اپنے استاد رضا محمد عرشی صاحب کو فون کیا اور میں نے ان کی بیٹی نسرین کے ساتھ عقد نکاح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میرے حالات کے مطابق یہ گھرانہ اس لیے بھی بہتر تھا کہ ہم ایک دوسرے کے حالات سے بخوبی واقف تھے۔ وہ غربت میں بھی گزارہ کر سکتی تھی۔ میں اسے کراچی میں رکھ کر اکیلے یہاں ملازمت کرسکتا تھا یا کراچی جا کر وہیں کچھ کرنے کا سوچ سکتا تھا۔ میری اس خواہش اور ارادے کو سراہا گیا اور میری بیوی کے والدین اور تمام اہل خانہ نے اس کا خیر مقدم کیا۔ بس پھر میں نے کراچی پہنچ کر شادی کرلی۔ یہ وہ دن تھے، جب میں اپنی دلہن کو لے کر آپ کے گھر کراچی آیا تھا۔‘‘
’’پھر آپ نے اپنی بیوی کے لیے ملائیشیا کے ویزا کا بندوبست کیسے کیا؟‘‘ میں یہ قانونی نقطہ سمجھنا چاہتا تھا۔ کیوں کہ ملازمت یا انکم ایسی نہیں تھی جس کے مطابق قانونی طور پر ان کی بیوی کو ملائیشیا میں ہمیشہ کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کا ویزا مل جائے۔
’’میں شادی کے بعد بیوی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔‘‘ علی نے بتایا۔ ’’لیکن اسے ملائیشیا نہیں لاسکتا تھا۔ کیوں کہ میں ایک معمولی ملازم تھا۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اب کراچی میں کوئی بزنس کروں گا۔ لیکن اس کے لیے حالات سازگار نہ تھے۔ سو مجبوراً ملائیشیا لوٹ کر اسی کام کو جاری رکھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ناکہ کسی کے آنے سے خوش نصیبی آتی ہے اور کسی کے جانے سے … کبھی کبھی قدرت کی جانب سے غیبی مدد بھی مل جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ چند مہینوں کے بعد میرے بزنس پارٹنر نے مجھے بتایا کہ وہ اس کاروبار کو چھوڑنا چاہتا ہے۔ دراصل وہ آسٹریلیا جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں تنہا اس کاروبار کو چلا سکتا ہوں تو وہ اسے میرے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ دوسری صورت میں اسے یہ کمپنی بند کرنی پڑتی۔ مجھے اپنے اوپر اعتماد تھا اور میرے پاس اتنی پونجی جمع ہوچکی تھی کہ میں مشکل حالات کا مقابلہ کرسکتا تھا۔ سو میں نے رضامندی ظاہر کی اور چند دنوں کے بعد کاغذی کارروائی اور حساب کتاب مکمل ہونے پر میں قانونی طور پر اس کمپنی کا مالک اور ڈائریکٹر بن گیا۔ اس صورت میں میری بیوی میری ساتھ رہ سکتی تھی۔ پھر میں نے جلد ہی نسرین کو کراچی سے یہاں بلوالیا۔‘‘
’’اس ملئی لڑکی سے کچھ رقم وصول ہوئی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں اور اب نہ ہی اس کی تمنا رکھتا ہوں، بلکہ میں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اسے میری بہتری منظور تھی۔‘‘ علی نے جواب دیا۔
’’وہ کیسے؟‘‘
’’وہ ایسے کہ میری محنت اور حق حلال کی کمائی کے چالیس ہزار رنگٹ ضرور گئے، جن کا مجھے عرصے تک افسوس بھی رہا۔ لیکن میں نے بعد میں سوچا کہ بہتر ہی ہوا کہ یہ معاملہ آگے نہ بڑھا اور اس نے مجھے ابتدائی اسٹیج ہی پر دھوکا دیا۔ ممکن ہے اس کی کچھ مجبوریاں ہوں۔ بہرحال شادی کرکے جتنی دیر کے بعد وہ مجھے چھوڑتی، اتنا ہی زیادہ مجھے نقصان کا منہ دیکھنا پڑتا۔‘‘
’’اچھا یہ بتائیں کہ اس پہلی لڑکی کے ساتھ آپ کی کبھی بات چیت ہوئی، جس کے والد نے منگنی کے بعد اس کی شادی آپ کے بجائے کسی دوسرے کے ساتھ کرا دی تھی؟ اس صدمے اور ذہنی عذاب نے آپ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا؟‘‘ میں نے علی سے پوچھا۔
’’جی ہاں، ایک مرتبہ۔‘‘ علی نے جواب دیا۔ ’’جب میرا سائبر کیفے بزنس ختم ہوگیا تھا اور میں نے میڈیکل کے آلات فروخت کرنا شروع کئے تھے۔ میں ایک دن پیراک ریاست کے شہر کوالاکنگسا کے اسپتال سے باہر آرہا تھا کہ اس دوران میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔‘‘
’’وہ لڑکی تھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں، اس کے والد تھے۔‘‘ علی نے جواب دیا۔ ’’وہ سخت بیمار تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب سے ان کی بیٹی رخصت ہوکر گئی ہے تو وعدہ کے مطابق ان سے پھر کبھی نہیں ملی۔‘‘
’’اب میں سخت بیمار ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا تھا۔ ’’میں اسے کئی پیغام بھجوا چکا ہوں کہ میں ایک مرتبہ اسے دیکھنا چاہتا ہوں، لیکن وہ کسی کی بات سننا نہیں چاہتی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ تمہاری بات نہیں ٹالے گی۔ تم گزری ہوئی باتیں، غم و غصہ بھول کر مجھے پر احسان کرو اور اسے فون کرو کہ مجھ سے مل کر جائے۔‘‘
’’انہوں نے مجھے اپنی بیٹی کا فون نمبر دیا اور میں نے پنجاب اس لڑکی کو فون کیا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یہ سب قدرت کا فیصلہ تھا۔ جو کچھ ہوا، اب اسے قبول کرلینا چاہیے۔
اسلام کی بھی تعلیمات ہیں کہ والدین کا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ بوڑھے ہوچکے ہیں۔ یہ تمہارا مجھ پر احسان ہوگا کہ ایک بار اپنے والد سے ضرور ملو۔‘‘
اس نے میری بات مان لی اور روہڑی آکر اپنے باپ سے ملی اور پھر اگلے ہی دن واپس پنجاب چلی گئی۔ قدرت کے بھی عجیب رنگ ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ وہ اپنے گاؤں پہنچی بھی نہیں تھی کہ چند ہی گھنٹوں میں اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔‘‘
’’اب کیا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے علی سے پوچھا۔
’’میں سب کے لیے دعا گو رہتا ہوں اور میں اپنے رب کا بے حد شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ غریب کو اس حال تک پہنچایا جس کے بارے میں، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ممکن ہے یہ سب میری نیک نیتی کا ثمر ہو۔ بہرحال میں یہی کہوں گا کہ ہر انسان کو دوسرے کا بھلا سوچنا چاہیے۔ دوسرے کے دکھ میں شامل ہوکر اس کے لیے خوشیاں پیدا کرنی چاہئیں۔‘‘
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More