اس مرتبہ راہِ فرار مشکل ہے

0

اتوار کو حیدرآباد اور ٹنڈوالہ یار میں جلسے سے خطاب اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران آصف علی زرداری نے جو گوہر افشانی کی ہے۔ اس پر کسی کو سنجیدہ اور فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ پاکستانی سیاست کا ایک ایسا کردار ہیں۔ جن پر کرپشن، لوٹ مار اور مخالفوں کو ٹھکانے لگانے کے بے شمار الزامات ہیں۔ زبان زد عام ہے کہ وہ اقتدار اور دولت کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ پہلے ان کی زوجہ محترمہ نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر ’’بھٹو کارڈ‘‘ کھیلتے ہوئے سندھ کے عوام کو بے وقوف بنا کر حکومت کی۔ پھر بے نظیر بھٹو کی ایک سانحہ میں ہلاکت کے بعد آصف علی زرداری نے ’’بی بی‘‘ کے نام پر پیپلز پارٹی کی وفاقی اور سندھ میں حکومتیں بنائیں۔ ان کی سیاست کا انداز عام طور پر مفاہمانہ قرار دیا جاتا ہے کہ وہ ہر ایک سے کسی بھی وقت مفاہمت اور مصالحت پر آمادہ رہتے ہیں۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ وہ فکرمند یا جلال میں نظر آئیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری آج تک ملک کے دو معتمد اداروں کی زد سے بچے ہوئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان دونوں کے خلاف کئی بار سخت زبان استعمال کر چکے ہیں۔ آصف علی زرداری نے ملکی سیاست میں اپنی پارٹی کی بدترین ناکامی کے بعد سندھ کی حکومت بچانے کے لیے آخر میں سندھ کارڈ کا استعمال کیا۔ جو 2018ء کے انتخابات میں اس لحاظ سے ناکام قرار دیا جا سکتا ہے کہ ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب زرداری صاحب سندھ کے عوام میں جاکر دونوں ہاتھوں کو لبوں تک لے جاکر لاکھ بوسے برسائیں۔ لوگ ان کی سیاست کو بخوبی سمجھ چکے ہیں۔ اسی طرح ان کے گرد عدالت کا گھیرا تنگ اور قدرت کی گرفت سخت ہوتی جارہی ہے تو حالات کا اندازہ کر کے پیپلز پارٹی کے ایک دھڑے کے سربراہ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ میں قید و بند سے گھبرانے والا نہیں۔ جیل تو میرا دوسرا گھر ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جلد انتخابات کا اشارہ ملا ہے۔ جس کے بعد موجودہ حکمرانوں سے جان چھڑا کر اپنی حکومت بنائیں گے۔ ان کا یہ دعویٰ اس بنا پر قابل اعتنا نہیں کہ جن مقتدر قوتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حکومتیں بناتی اور گراتی ہیں۔ انہوں نے آصف علی زرداری تو کیا، ان کی جماعت اور سابقہ رہنمائوں کو بھی پسند نہیں کیا۔ بلکہ ان سب کو اکثر سیکورٹی رسک سمجھا گیا۔ سقوط مشرقی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دورۂ پاکستان کے موقع پر سکھ علیحدگی پسندوں کی فہرستیں انہیں فراہم کی گئیں۔ جس کے بعد بھارت میں ان کے خلاف کارروائی ہوئی اور امرتسر میں ان کے مرکزی گوردوارے گولڈن ٹیمپل پر بھی فوجی حملہ کیا گیا۔ یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کو پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کے قریب تک پھٹکنے نہیں دیا گیا۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے تحریک انصاف کی حکومت کو احمقوں کی حکومت قرار دیتے ہوئے کہا کہ انڈر 16 کی ٹیم کو کھیلنا ہی نہیں آتا۔ اس نے لوگوں کو روزگار دینے کے بجائے رہا سہا روزگار بھی چھین لیا ہے۔ جنہیں کام کرنا نہیں آتا وہ سو دنوں یا پانچ سال میں تو کیا، سو سال میں بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ پکڑ دھکڑ اور تاجروں کو مارنا چھوڑ دیں تو کوئی دھندا بھی چلے۔ یہاں تک تو آصف علی کے خیالات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ لیکن موصوف نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کس کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ کٹھ پتلیوں کو کیوں لاتے ہو؟ نیا پودا پانی تو لے رہا ہے مگر پھل نہیں دے رہا۔ نواز شریف کو لائے، وہ آپ کے خلاف ہو گیا۔ الطاف حسین کو کھڑا کیا، وہ دوسروں سے مل گیا۔ پاکستان کے ہر دور میں مذاق ہوا اور عجیب عجیب کہانیاں لکھی گئیں۔ ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا ڈراما رچایا جس کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو نے آواز اٹھائی اور انہیں سزا دی گئی۔ آصف علی زرداری ذرا اپنا ریکارڈ درست کر لیں کہ ایوب خان کے بنیادی جمہوریت کے ڈرامے میں ذوالفقار علی بھٹو اس حد تک پیش پیش تھے کہ انہوں نے ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کا ضلعی صدر ہر علاقے کے تھانیدار کو بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کی سیاسی تربیت ایوب خان کے دور میں شروع ہوئی۔ اور جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں تکمیل تک پہنچی۔ جنرل یحییٰ کے ایک بیٹے کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے جو اس سے قبل بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ جنرل صاحب محبت بھرے ہاتھوں سے ذوالفقار علی بھٹو کو پیگ بھر بھر کر دیتے تھے۔ واضح رہے کہ دونوں سقوط مشرقی پاکستان کے مرکزی کردار تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بنیادی جمہوریت کے خلاف آواز اٹھانے پر نہیں بلکہ احمد رضا قصوری کے والد میاں محمود قصوری کو قتل کرانے پر سپریم کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی۔ ان کا اصل ہدف احمد رضا قصوری تھے۔ جو پیپلز پارٹی کے باغی رہنما قرار پائے تھے۔ آصف علی زرداری کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ سازشوں سے پیپلز پارٹی زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ البتہ یہ بتانا اہل دانش و بینش کا کام ہے کہ یہ سازشیں پیپلز پارٹی کے خلاف ہیں یا پیپلز پارٹی کی اپنی؟ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر آپ ’’بی بی کارڈ‘‘ پر پیسے کم کریں گے تو تھر کی خواتین آپ کو ماریں گی۔ تھر کی خواتین بے چاری کیا کسی کو ماریں گی۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت خود ہی انہیں اور ان کے بچوں کو تھر میں بے موت مار رہی ہے۔ وہاں ہر سال ہزاروں بچے غذا و پانی کی قلت اور وبائی امراض سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ زرداری صاحب کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کراچی کی ایمپریس مارکیٹ پچاس سال پرانی ہے یا اس کی بنیاد انیسویں صدی کے اواخر میں برطانوی حکومت کے دور میں پڑی تھی۔ ان کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کو توڑ دیا گیا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کے اردگرد قائم تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کے ایم سی نے ہی تجاوازت قائم کی تھیں۔ جن کے عوض وہ اپنا حصہ وصول بھی کرتی رہی۔ پاکستان کے ایک معروف صحافی شاہین صہبائی، جو آج کل بیرون ملک مقیم ہیں، کہتے ہیں کہ ان دنوں آصف علی زرداری صاحب کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ لہٰذا ذہنی دبائو کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ شاید ہمیشہ کی طرح ابھی کوئی راہ فرار نکل آئے۔ لیکن یاد رہے کہ اس مرتبہ وہ پوری طرح کنٹرول میں ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More