لاہور کے شہریوں نے بسنت کو خونی کھیل قرار دیدیا

0

مرزا عبدالقدوس
پنجاب حکومت کی جانب سے بسنت منانے کی اجازت دینے پر لاہور کے شہریوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ بسنت خونی تہوار ہے۔ ایسی کسی تفریح کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے، جس سے انسانی جانوں کیلئے خطرات ہوں۔ جبکہ ماضی میں پتنگ کی ڈور سے درجنوں بچے اور بڑے ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔ پتنگ اڑاتے اور لوٹتے ہوئے بچوں کے چھتوں سے گرنے کے واقعات بھی ریکارڈ پر ہیں۔ تین برسوں میں پتنگ کی خونی ڈور سے 38 افراد کی ہلاکت کے بعد وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بسنت پر پابندی لگائی تھی۔ واضح رہے کہ حکومت نے دس سال کے وقفے کے بعد فروری کے دوسرے ہفتے میں لاہور اور پنجاب میں بسنت منانے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق بسنت سے اربوں روپے کا کاروبار وابستہ ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے نہ صرف کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ بلکہ عالمی سطح پر تحریک انصاف حکومت کا سافٹ امیج بنے گا۔ جبکہ لاہوریوں میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں بھی نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ لیکن لاہور کے بعض شہری حلقوں نے اس فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں عمران خان خود بھی بسنت سمیت ایسی تقریبات اور میلوں ٹھیلوں کے دلدادہ رہے ہیں، جہاں ہلڑ بازی اور بوکاٹا کے نعرے گونجے تھے اور رات بھر کھانے چلتے تھے۔ بسنت پر عمران خان عموماً لاہور کی ممتاز شخصیت اور علامہ محمد اقبالؒ کے نواسے میاں یوسف صلاح الدین کی حویلی میں مدعو ہوتے تھے، جو پرانے لاہور میں واقع ہے۔ بسنت کے موقع پر غیر ملکی سفیروں، اس تفریح میں دلچسپی لینے والی اہم شخصیات اور شو بز کے خواتین و حضرات کو مدعو کیا جاتا تھا۔ ذرائع کے مطابق میاں یوسف صلاح الدین، عمران خان کے قریبی دوست ہیں۔ انہوں نے دیرینہ تعلق اور دوستی کا فائدہ اٹھا کر تحریک انصاف کی حکومت کو بسنت پر پابندی ختم کرنے کے فیصلے پر آمادہ کیا ہے۔ صوبائی وزیر قانون محمد بشارت راجہ کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی میں یوسف صلاح الدین بھی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی بسنت کے موقع پر خصوصاً موٹر سائیکل سواروں اور عام افراد کے تحفظ اور اس تہوار کو بغیر کسی خون خرابے کے منانے کیلئے سفارشات مرتب کرے گی۔
یاد رہے کہ 2004ء میں بسنت کے دن دھاتی ڈور گلے پر پھرنے سے 9 افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ 2005ء میں 19 افراد، جبکہ 2007ء میں 10 افراد اس خونی تفریح کی بھینٹ چڑھے۔ جبکہ 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف نے 2009ء میں بسنت پر پابندی لگادی اور اپنی وزارت اعلیٰ کے پورے دور میں تمام تر دباؤ اور شدید مطالبے کے باوجود انہوں نے پابندی اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ لیکن اب پنجاب حکومت نے پابندی اٹھانے کا فیصلہ کیا تو پتنگ بازی کے دلدادہ افراد کے علاوہ کاروباری حلقوں میں بھی اس فیصلے کو سراہا جارہا ہے۔ لیکن سنجیدہ حلقے شہریوں کی زندگی کیلئے بہت فکر مند اور پریشان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض افراد نے اس فیصلے کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا ہے۔ جبکہ نواز لیگ کی ایک خاتون رکن صوبائی اسمبلی نے اس فیصلے کے خلاف اسمبلی میں قرارداد بھی جمع کرادی ہے۔ لاہور کے لارڈ میئر کرنل (ر) مبشر جاوید نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ پہلے حفاظتی اقدامات کئے جائیں۔ اگر عوام کے جانی نقصان کا اندیشہ ہو تو بسنت کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
بسنت کے حامیوں میں SAFE KITE FLYING ایسوسی ایشن بھی شامل ہے۔ لیکن یہ تنظیم انسانی جان کو سب سے قیمتی سمجھتے ہوئے بسنت منانے سے قبل عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے بھی کوشاں ہے۔ اس مقصد کے لئے فلائنگ ایسوسی ایشن نے کئی برس کی محنت اور تجربات کے بعد موٹر سائیکل سواروں کے تحفظ کیلئے ایک انٹینا ڈیزائن کیا ہے، جس سے موٹر سائیکل سوار، اس کے آگے بیٹھا بچہ اور پیچھے بیٹھی سواری بھی دھاتی ڈور سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ فلائنگ ایسوسی ایشن 2009ء کے صدر محمد افتخار نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ہم نے مختلف تجربات کے بعد کئی برس کی محنت سے یہ انٹینا ڈیزائن کیا ہے اور اس کو رجسٹرڈ بھی کرایا ہے۔ اس انٹینا کے استعمال سے موٹر سائیکل سوار بسنت کے دوران دھاتی تار سے محفوظ رہیں گے، جو پتنگ اڑانے والے بعض افراد استعمال کرتے ہیں‘‘۔ محمد افتخار کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا مشن صرف بسنت نہیں بلکہ محفوظ بسنت ہے۔ اس مقصد کیلئے لاکھوں انٹینا بنانے کا آرڈر دیدیا ہے اور ایک انٹینا کی قیمت صرف پانچ سو روپے مقرر کی گئی ہے‘‘۔ محمد افتخار نے بتایا کہ ایک دن میں وہ ساڑھے چار سو انٹینا لگا چکے ہیں اور لاہور شہر کے مختلف حصوں میں ڈیلرز مقرر کرنے کی پلاننگ کررہے ہیں، کیونکہ ان کا رجسٹرڈ انٹینا کوئی دوسرا ڈیزائن نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ صرف کروڑوں روپے کا کام بسنت کی وجہ سے موٹر سائیکلوں پر ہوگا۔ اسی طرح اربوں روپے کی ڈور، دھاگے، مختلف رنگوں اور اقسام کے کاغذ اور دیگر متعلقہ اشیا کی خریداری ہوگی۔ ہزاروں افراد دو ماہ میں دن رات کام کریں گے، تب کہیں جاکر فروری کے دوسرے ہفتے میں بسنت منائی جاسکے گی۔ کروڑوں کی تعداد میں گڈے اور گڈیاں (پتنگیں) بنائی جائیں گی۔ اسی طرح کھانے پینے، کپڑوں، لائٹوں اور دیگر تیاریوں پر بھی بھاری رقوم خرچ ہوں گی۔ ماضی میں بسنت کے موقع پر بیرون ملک اور پاکستان کے دیگر شہروں سے ہزاروں افراد تفریح کیلئے لاہور آتے تھے۔ جس سے شہر میں کاروباری سرگرمیاں کئی سوگنا بڑھ جاتی تھیں۔ اگر حکومت اس موقع کو اچھی منصوبہ بندی کرکے استعمال کرے تو کروڑوں روپے کا ریونیو بھی کمایا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاطر محمود نے بسنت منانے کی اجازت دینے کیخلاف دائر کی گئی رٹ کی سماعت سے معذرت کرلی ہے۔ جبکہ ایک شہری میاں خلیل حنیف نے اپنے وکیل کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون پنجاب کو دس دن میں یہ فیصلہ واپس لینے کا نوٹس بھجوایا ہے، بصورت دیگر سپریم کورٹ جانے کی دھمکی دی ہے۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات و ثقافت فیاض الحسن چوہان کے مطابق بسنت میلہ پنجاب کی ثقافت کا آئینہ دار ہے اور لوگ اس تفریح میں بڑے جوش جذبے اور شوق کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی اولین ترجیح لوگوں کی جان و مال کا تحفظ ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے جو کمیٹی بنائی ہے، اس میں سیاسی افراد کے علاوہ بیورو کریٹس اور بسنت کی دلدادہ عوامی شخصیات بھی شامل ہیں۔ اس کمیٹی کی اولین ترجیح بسنت کے موقع پر عوام کا تحفظ ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More