بت شکنوں اور بت پرستوں کا اتحاد!

0

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حکومتی سطح پر تعلقات ابتدا ہی سے اتار چڑھائو کا شکار رہے، لیکن دونوں ملکوں کے عوام نے مذہبی، تاریخی، انسانی اور نسلی بنیادوں پر ہمیشہ خود کو ایک دوسرے کے قریب محسوس کیا۔ سرحد پار آزادانہ آمد و رفت اور خاندانی تعلقات کی وجہ سے پاک و افغان عوام نے کبھی آپس میں بے گانگی محسوس نہیں کی۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد وہاں حامد کرزئی کو صدر بنایا گیا تو انہوں نے پاکستان کی کبھی حمایت اور کبھی مخالفت کے باوجود بار بار اس امر کا اعتراف کیا کہ دونوں ملکوں کے عوام مذہبی و تاریخی اور نسلی و ہمسائیگی کے مضبوط رشتے سے منسلک ہیں اور انہیں علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ 1947ء میں انگریزوں سے آزادی کے بعد برصغیر میں مسلمانوں کے لئے جو علیحدہ مملکت قائم ہوئی، اس کا نام پاکستان رکھا گیا۔ اس کے اجزا میں پ (پنجاب کا مخفف) کے بعد جو الف ہے، وہ افغانیہ کا مخفف ہے۔ یہ پاکستان کے شمال مغربی حصے اور افغانستان کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے بعد سندھ کا س اور بلوچستان کا ’’ستان‘‘ ہے۔ اس طرح لفظ پاکستان میں مختلف علاقوں کی نمائندگی کے علاوہ پاک سرزمین کا تصور بھی شامل ہے۔ تاہم قیام پاکستان کے وقت افغانستان میں موجود شاہ ظاہر شاہ کی حکومت نئی مسلم مملکت کے وجود کی مخالف رہی۔ افغانستان واحد ملک تھا، جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت کی مخالفت کی۔ افغانستان نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرکے صوبہ سرحد (آج کا خیبر پختونخوا) اور بلوچستان کے کئی حصوں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات اکثر کشیدہ رہے۔ بعد کی افغان حکومتوں نے بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بھارت اور سوویت یونین (آج صرف روس) کے تعاون سے یہاں دہشت گردوں کی تربیت کے مراکز قائم کئے، جبکہ افغانستان نے بھی پاکستان پر یہی الزام لگایا۔ سوویت یونین نے 1978ء میں افغانستان پر حملہ کیا اور ایک طویل جنگ کے بعد افغان مجاہدین نے پاکستان کی مدد سے اس یونین کے پرخچے اڑا دیئے تو افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی۔ سوویت یونین کی ذلت آمیز شکست میں بلاشبہ امریکا نے بھی کچھ کردار ادا کیا، لیکن بعد میں اسے خطرہ محسوس ہوا کہ جنرل ضیاء الحق (شہید) افغانستان کی اسلام پسند حکومت کے ساتھ مل کر پاک و افغان الحاق (کنفیڈریشن) قائم کرنا چاہتے ہیں تو امریکا نے جنرل ضیاء الحق کو ایک طیارے کے حادثے میں شہید کرا دیا۔ اس سازش میں اس نے اپنے ایک سفیر کو بھی قربان کر دیا۔ اس کے بعد امریکا نے خود اپنے اتحادی ملکوں کی مدد سے طالبان حکومت کو ختم کرنے کے لئے افغانستان پر وحشیانہ بمباری شروع کر دی، جس کے نتیجے میں طالبان دور کا یہ پرامن ملک تباہ و برباد ہو کر رہ گیا اور یہاں امریکی کٹھ پتلی حکومت قائم ہوگئی۔ جس کے بعد سوویت جارحیت کے دور سے پاکستان میں آکر بسنے والے افغان باشندوں کی تعداد چالیس لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔
حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں امریکی سرپرستی کے باوجود افغانستان میں امن و استحکام نہ لاسکیں اور خود امریکا بہادر نے زبردست جانی و مالی نقصان اٹھایا تو بالآخر اسے بھی اپنی اور اتحادیوں کی فوجیں وہاں سے نکالنی پڑیں۔ اس وقت افغانستان میں امریکا کے پندرہ سے بیس ہزار فوجی قیام، امن و امان اور بحالی کے نام پر موجود ہیں۔ اب امریکا، اس کے مغربی اتحادیوں اور بھارت کو پوری طرح اندازہ ہو گیا ہے کہ افغانستان میں آج بھی طالبان سب سے بڑی قوت ہیں اور اس ملک میں پاکستان کی مدد کے بغیر پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے نہ استحکام آسکتا ہے۔ امریکا افغانستان سے مکمل طور پر بے دخل ہونا چاہتا ہے یا نہیں، اس سے قطع بھارت اس کی سرپرستی میں افغانستان کے اندر اپنے قدم گاڑے رکھنا چاہتا ہے، تاکہ وہ اپنے علاوہ امریکی مفادات کی بھی نگرانی کرسکے۔ امریکا کی بھی یہی خواہش ہے، کیونکہ اپنے بعد اسے افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کا خطرہ ہے۔ تاہم افسوسناک امر یہ ہے بھارت کے افغان طالبان سے رابطے کرانے کے لئے ایران خواہ مخواہ بیچ میں کود پڑا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کا کردار ضرور چاہتے ہیں، لیکن ان کی بالادستی قبول نہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ایران نے بھارت کو افغان طالبان سے رابطے کے لئے تعاون کی پیشکش کی ہے۔ کیوں؟ وہی مسلکی اختلاف۔ گویا اسلام اور کفر کے مقابلے میں مسلکی اختلاف ایران کی نظر میں زیادہ خطرناک ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے بعد طالبان حکومت میں آسکتے ہیں (بلکہ جلد ہی برسراقتدر ہوں گے) لہٰذا پاکستان کو افغانستان میں قدم جمانے سے روکنا ہوگا۔ بھارت فی الوقت افغانستان میں امریکا کی کٹھ پتلی حکومت کا حامی ہے، لیکن اس ملک سے سرحدی، نظریاتی، کسی قسم کا تعلق نہ ہونے کے باوجود بھارت طالبان سے تعلقات کے لئے کوشاں ہے۔ اسی سلسلے میں اس نے ایران سے مدد طلب کی ہے۔ یاد رہے کہ قبل ازیں بھارت طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کا حامی نہیں تھا۔ لیکن بدلتی ہوئی صورتحال میں افغانستان کے اندر اپنا وجود باقی رکھنے کے لئے بھارت کالے چور سے بھی مدد لینے کو تیار ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان گہرے مذہبی، تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی روابط کے تناظر میں ایرانی حکومت کی جانب سے بھارت کی مدد پر آمادگی پاکستان کے لئے باعث حیرت ہی نہیں، افسوسناک بھی ہے۔ پاکستان میں آج بھی لاکھوں افغان باشندے پناہ گزین ہیں۔ جبکہ افغانستان میں پاکستانی مشن افغان باشندوں کو روزانہ کم و بیش چار ہزار ویزے مفت جاری کرتا ہے۔ یہ ان سے پاکستان کی محبت کا واضح ثبوت ہے۔ مبصرین کو یقین ہے کہ بھارت اور طالبان کے درمیان مضبوط تعلقات قائم کرنے کی ایرانی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوں گی۔ طالبان فطری طور پر راسخ العقیدہ مسلمان اور بت شکن ہیں۔ جبکہ بھارت ہزاروں سال سے دنیا کا سب سے بڑا بت پرست ملک ہے۔ لہٰذا ایرانی کوششوں کے باوجود یہ اَن مل بے جوڑ اتحاد ممکن نہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More