نپولین کا خزانہ بیلاروس کی جھیل میں ہونے کا دعویٰ

0

احمد نجیب زادے
فرانسیسی شہنشاہ نپولین بونا پارٹ کا کروڑوں ڈالرز مالیت کا خزانہ آج بھی متعدد روسی کھوجیوں اور کمپنیوں کیلئے باعث دلچسپی ہے اور درجنوں روسی کمپنیاں اس خزانے کی تلاش میں متعدد مقامات پر تلاش میں مشغول ہیں۔ تاہم اب متعدد ماہرین اور کھوجیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ نپولین کا حقیقی خزانہ جس مقام یعنی سملیوو جھیل کے اطراف دو سو برس سے تلاش کیا جارہا ہے، وہ غلط مقام ہے۔ اصلی مقام بیلا روس کی ایک جھیل ’’بولشایا روتا ویک‘‘ ہے، جہاں آج بھی نپولین کا اسّی ہزار کلو گرام طلائی خزانہ مدفون ہے اور دو صدیوں کی یہ تلاش ختم ہونے والی ہے۔ کیونکہ روس کی جانب سے جھیل کے اطراف جلد خزانہ کی تلاش کا کام شروع ہونے والا ہے۔ مقامی روسی ماہرین اس جھیل کے پانی کا کیمیائی تجزیہ کر کے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس جھیل کے پانی میں سونے اور چاندی کے ذرات کی بڑی تعداد موجود ہے، جس سے یقین کیا جا سکتا ہے کہ یہیں نپولین کا خزانہ مدفون ہے۔ جبکہ اس جھیل کی تہہ اور اطراف میں جدید سینسرز کی مدد سے کھدائی کا کام جلد شروع کیا جائے گا، جس میں شامل ماہرین کو 100 فیصد یقین ہے کہ نپولین کا گمشدہ خزانہ انہیں یہیں ملے گا۔ روسی جریدے ’’روبوچی پت‘‘ نے ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فرانسیسی شہنشاہ نپولین نے 1812 میں ماسکو میں بد ترین شکست کے بعد فرانس جانے کا فیصلہ کرتے وقت طلائی زیورات اور ٹھوس سونے سمیت قیمتی پتھروں کا جو خزانہ سینکڑوںگھوڑا گاڑیوں میں بھرا تھا، اس کو راستے میں کسی مقام پر زمین میں چھپا دیا گیا تھا اور اس خزانے کو تلاش کرنے کیلئے دو سو برس سے متعدد ٹیمیں اور روسی سرکاری ادارے بھی سرگرداں رہے تھے۔ لیکن کسی بھی کھوجی کے ہاتھ میں یہ خزانہ نہیں آسکا تھا۔ البتہ تازہ تحقیق میں ایک روسی ایکسپرٹ وچسلوف ایزیکوف نے لکھا ہے کہ اب تک یہی سمجھا جارہا تھا کہ ماسکو سے انخلا کے دوران فرانسیسی شہنشاہ نپولین نے جو سونا اور خزانہ ساتھ نہ لے جاسکنے کے سبب راستے میں چھوڑا تھا، اس کو بڑی احتیاط سے زیر زمین دبایا گیا تھا، جس میں اسی ٹن سونا اور قیمتی پتھر اور دیگر ساز و سامان شامل تھا۔ واضح رہے کہ 1812 میں نپولین کو روسی افواج کے مقابلہ میں شدید سردیوں کے سبب شکست ہوگئی تھی اور پوری شکست خوردہ فرانسیسی افواج واپس فرانس کی جانب نکلی تھی۔ اس وقت فرانسیسی شہنشاہ نپولین نے فیصلہ کیا کہ سارا خزانہ جو سینکڑوں گھوڑا گاڑیوں اور بوگیوں میں بھرا ہوا تھا ایک مقام پر پگھلاکر اس کو زیر زمین دبادیا جائے، اس مقصد کیلئے فرانسیسی شہنشاہ نپولین بونا پارٹ نے اپنے دست راست کمانڈر فلپ ڈی سیگر کو مقرر کیا تھا جنہوں نے نامعلوم مقام پر اس خزانہ کو دفنانے سے قبل تمام سونا پگھلا دیا تھا اور اس کو بلاکس کی شکل میں مولڈ کرکے نامعلوم مقام پر دفنایا تھا۔ حیران کن طور پر کمانڈر فلپ سیگر نے ایک فوجی کے ذریعہ اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ اس تمام خزانہ کو فرانس جانے والے راستے سے مغربی سمت کے مخالف ایک مقامی خطے ’’سیمو لنسک‘‘ میں واقع مقامی جھیل ’’سملیوو‘‘ کے پاس دفنا دیا گیا تھا اور اس ضمن میں فرانسیسی شہنشاہ نپولین کا یہ خیال تھا کہ وہ حالات ساز گار ہوجانے پر اس خزانہ کو واپس لے لیں گے، لیکن ان کو بعد کے حالات نے مہلت نہیں دی۔ تاہم بہت سے ماہرین نے فرانسیسی شہنشاہ نپولین کے دست راست کمانڈر اور خزانہ کے نگراں فلپ سیگر کی اس بات کو پلے میں باندھ لیا کہ تمام طلائی خزانہ سیمولنسک میں واقع ایک جھیل سملیوو کے آس پاس دفنایا گیا ہے۔ روسی جریدے ’’ریا نووستی‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ دو برس سے سینکڑوں روسی کھوجیوں کی ٹیموں نے پورے سیمولنسک خطے میں اور بالخصوص جھیل سملیوو کے اطراف تمام علاقوں کو چھان مارا ہے، لیکن سبھی ناکام ہوئے ہیں۔ ایک تازہ تحقیق میں روسی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ فرانسیسی شہنشاہ نپولین کے کمانڈر فلپ سیگر نے دریائے سملیوو کا نام دراصل سبھی کو گمراہ کرنے کیلئے لیا تھا اور حقیقی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس جھیل کی مخالف سمت میں ایک مقام پر خزانہ دفنا دیا تھا اور ایک خبری کی مدد سے یہ بات پھیلا دی کہ تمام خزانہ جھیل سملیوو کے اطراف یا اس کی تہہ میں جگہ بنا کر دفنایا تھا۔ فلپ سیگر کی اس حکمت عملی کا مقصد یہ تھا کہ تمام لوگوں کی توجہ جھیل سملیوو کی جانب مبذول کروا دی جائے تاکہ سبھی لوگ خزانہ تلاش کرنے میں لگ جائیں اور کوئی بھی کھوجی درست مقام پر نہ پہنچ سکے، جو بیلا روس کا دریائے بولشایا روتاویک ہے جہاں اس خزانہ کی تلاش کی جانی چاہئے تھی۔ ایک نئے تحقیقی مقالہ میں روسی ایکسپرٹ وچسلوف ایزیکوف نے لکھا ہے کہ نپولین کی جانب سے روس سے چرائے گئے قیمتی خزانہ کی تلاش کا کام1830 کے بعد سے ہی شروع کردیا گیا تھا۔ روسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت جلد دو صدیوں کی یہ پراسرار تلاش اختتام پذیر ہونے والی ہے ۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More