حکومت ملنے سے ذبح ہونا پسند ہے

0

مدینہ منورہ اس روز گہری اور پر سکون خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اچانک لوگوں کو شور سنائی دیا۔ یہ ایک لمبے چوڑے قافلے کی آمد کی خبر تھی۔
لوگوں نے پوچھا: ’’آج مدینہ میں کیا ہو گیا ہے؟‘‘
جواب ملا: ’’یہ عبد الرحمٰن بن عوفؓ کا قافلہ ہے، جو شام سے مال تجارت لے کر آیا ہے۔
’’کیا قافلہ اتنا بڑا ہے؟‘‘ لوگوں نے پوچھا۔
’’ہاں یہ قافلہ سات سو اونٹوں پر مشتمل ہے اور یہ سارا سامان مدینہ کے غرباء میں تقسیم ہو گا!!‘‘
حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ اپنے عہد میں جزیرہ نمائے عرب کے سب سے مالدار تاجر تھے۔ آپؓ کہا کرتے تھے کہ ’’میں اگر پتھر اٹھاتا ہوں تو اس کے نیچے سونا اور چاندی پاتا ہوں۔‘‘
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے اپنی زندگی کا آغاز غربت سے کیا تھا۔ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے اور مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم ہوئی تو رسول اقدسؐ نے جناب عبد الرحمٰن بن عوفؓ کو حضرت سعد بن ربیعؓ کا بھائی بنایا۔
حضرت سعدؓ نے حضرت عبد الرحمنؓ سے کہا: ’’بھائی! میں مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں، میرا آدھا مال لے لو اور میری دو بیویاں ہیں جو تمہیں پسند آئے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں، تم اس سے شادی کرلو۔‘‘
مگر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے ان سے کہا: ’’خدا تعالیٰ تمہارے اہل و عیال اور مال میں برکت فرمائے! مجھے تم صرف بازار کی راہ دکھا دو۔‘‘
پھر آپؓ بازار گئے، کچھ مال خرید کر فروخت کیا اور نفع کما لیا۔آپؓ نے ایک روز اپنے بارے میں رسول اقدسؐ کو فرماتے سنا کہ ’’اے ابن عوف! تم دولت مند ہو، تم سست روی سے جنت میں داخل ہو گے۔ لہٰذا خدا کو قرض دو، تمہارے قدم کھول دیئے جائیں گے۔‘‘
جس روز سے آپؐ نے رسول اقدسؐ کی زبان مبارک سے یہ نصیحت بھرے کلمات سنے، آپؓ اپنے رب کو قرض حسنہ دینے لگے اور خدا بھی اس کو کئی گنا بڑھاتا رہا۔ رسول اقدسؐ نے غزوئہ تبوک کا ارادہ فرمایا تو صحابہ کو راہ خدا میں خرچ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ صدقہ و انفاق کرنے والے اس اولین گروہ میں شامل تھے۔ رسول اکرمؐ نے عطیہ کی وصولی کے بعد جناب عبد الرحمٰنؓ سے پوچھا: ’’عبد الرحمٰن! کیا اہل خانہ کے لئے بھی کچھ چھوڑا ہے؟‘‘
جناب عبد الرحمنؓ نے جواب دیا: ’’حضور… میں نے ان کے پاس وہ اجر چھوڑا ہے، جس کا خدا اور اس کے رسولؐ نے وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپؓ نے پچاس ہزار دینار خدا کی راہ میں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ اسلام میں سب سے بلند مرتبہ لوگ وہ سمجھے جاتے ہیں جو غزوئہ بدر میں شریک ہوئے۔ انہوں نے غزوئہ بدر میں شرکت کرنے والے زندہ اصحاب میں سے ہر ایک کو چار ہزار دینار دینے کی بھی وصیت کی۔ اپنے ورثا کے لیے کئی ہزار اونٹ، گھوڑے اور بکریاں ترکہ میں چھوڑ گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آپؓ ہمیشہ اس دولت سے خائف رہے۔ ایک روز آپؓ کے سامنے افطاری کا کھانا رکھا گیا، کھانے پر آپؓ کی نظر پڑی تو آپؓ رو پڑے اور کہا: ’’مصعبؓ بن عمیر شہید ہوئے۔ انہیں ایک چادر میں کفنایا گیا، اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور اگر پاؤں ڈھانپا جاتا تو سر ننگا ہو جاتا۔ حمزہؓ شہید ہوئے۔ ان کے کفن کے لئے ایک چادر کے سوا کچھ نہ ملا۔ پھر دنیا ہمارے سامنے خوب پھیلا دی گئی اور ہمیں اس سے بہت کچھ عطا ہوا۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں ہماری نیکی کا بدلہ ہمیں یہاں ہی نہ دیدیا جائے‘‘۔
سیدنا عمر فاروقؓ کے بعد نئے خلیفہ کا انتخاب ہونے لگا تو کچھ جید صحابہؓ سیدنا ابن عوفؓ کی طرف اشارے کرنے لگے۔ اس موقع پر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے کہا: ’’خدا کی قسم! اگر چھری لے کر میرے حلق پر رکھ دی جائے اور پھر اسے ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دیا جائے تو یہ چیز مجھے خلافت سے زیادہ پسند ہے‘‘۔ (بحوالہ: اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More