نبوی عدالت میں دو خواتین کا مقدمہ

0

نبی کریمؐ کے زمانے میں دو عورتوں کا جھگڑا ہوا۔ ان میں ایک حضرت انس بن نضرؓ کی ہمشیرہ تھیں، جنہوں نے دوسری عورت کا دانت توڑ دیا تھا۔ مقدمہ نبی کریمؐ کی عدالت میں آیا تو نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’قرآن کریم کے فیصلے کے مطابق دانت کے بدلے میں دانت ہی تھوڑا جائے گا۔‘‘
حضرت انس بن نضرؓ ایک جلیل القدر صحابی ہیں، آپؓ جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اور بعد میں انہوں نے جوش ایمانی سے سرشار ہوکر نبی کریمؐ سے فرمایا: ’’خدا کی قسم، اگر خدا پاک نے مجھے مشرکین سے جنگ کرنے کا ایک موقع دیا تو حق تعالیٰ خود دیکھے گا کہ میں کیسے کارنامے انجام دیتا ہوں۔‘‘
چنانچہ آپ غزوہ احد میں بہت جی داری سے لڑے تھے۔ آپؓ کے شہادت کے بعد دیکھا گیا تو آپؓ کے جسم پہ تلواروں نیزوں اور تیروں کے اسی (80) زحم موجود تھے اور کفار نے اس بے دردی سے آپؓ کی لاش کی بے حرمتی کی تھی کہ آپؓ کی بہن نے آپؓ کو انگلیوں کے پور سے پہچان لیا تھا۔
حضرت انسؓ نے جب ہمشیرہ کے بارے میں حضورؐ کا فیصلہ سنا تو رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’حضور! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میری بہن کا دانت توڑ دیا جائے؟‘‘
نبی کریمؐ نے فرمایا ’’ہاں کیونکہ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔‘‘
حضرت انسؓ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم میری بہن کا دانت نہیں ٹوٹے گا۔‘‘
آخر یہ قسم کیسی تھی؟ کیا حضرت انسؓ نے شرعی حکم پہ اعتراض کیا تھا یا نبی کریمؐ کا فیصلہ قبول نہ تھا؟ نہیں ایسا نہیں تھا، بلکہ انہوں نے قسم اس لئے کھائی تھی، کیونکہ ان کو خدا کی ذات سے امید تھی کہ خدا پاک ان کی قسم کو رائیگاں نہیں جانے دے گا، بلکہ ضرور کوئی نہ کوئی سبب پیدا کر دے گا۔ چنانچہ جب حضرت انسؓ نے قسم کھائی تو نبی کریم نے فرمایا:
’’اس عورت کے گھر والوں کے پاس جائو، اگر وہ تاوان پر راضی ہوگئے تو پھر کوئی حرج نہیں۔‘‘
لوگ اس زحمی خاتون گھر والوں کے پاس گئے۔ ان لوگوں نے تاوان پہ رضامندی ظاہر کردی۔ اگرچہ وہ پہلے نہیں مان رہے تھے، بلکہ وہ بدلہ لیے پہ تلے تھے۔ رسول اقدسؐ کو جب حالات کا علم ہوا تو آپؐ مسکرائے اور حضرت انسؓ کے دبلے پتلے جسم اور پٹھے پرانے کپڑوں کی طرف دیکھ کر فرمایا:
’’خدا کے کچھ بندے ایسے ہیں، اگر وہ خدا تعالیٰ کی ذات کی قسم کھا بیٹھیں تو حق تعالیٰ ان کی قسم کو پورا کر دیتا ہے۔‘‘ (البخاری 2703، مسند احمد)
عالمِ اسباب:
ذیل کا واقعہ حضرت علی بِن حربؒ نے بیان فرمایا کہ:
’’میں اور کچھ نوجوان دریائے موصل کے کنارے ایک کشتی پر بیٹھے۔ کشتی جب درمیان میں پہنچی تو ایک مچھلی دریا سے کود کر کشتی میں آ گئی۔ سب نے جب مچھلی کو دیکھا تو سوچا کسی جگہ کشتی روک کر اسے بھونا جائے۔‘‘
چنانچہ جب ناؤ ایک کنارے پر لگائی گئی اور آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کی جانے لگیں، اسی دوران ہم نے ایک ویرانہ دیکھا، جہاں پرانے کھنڈرات اور قدیم مکانوں کے آثار تھے اور دیکھا کہ: ایک شخص پڑا ہوا ہے، جس کے ہاتھوں کو کسی نے اس کے شانوں کے پیچھے اچھی طرح باندھ دیا ہے اور وہیں ایک دوسرا شخص ذبح ہو کر مرا پڑا ہے اور نزدیک ہی سامان سے لدا ہوا ایک خچر کھڑا ہے۔
ہم لوگوں نے بندھے ہوئے شخص سے ماجرا دریافت کیا، اس نے کہا: ’’میں نے اس شخص کا خچر کرائے پر لیا تھا۔ یہ مجھے راستے سے یہاں بھٹکا لایا اور میری مشکیں کس دیں اور کہا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔ میں نے اس کو خدا کا واسطہ دیا کہ ظلم نہ کر اور میرے قتل کا گناہ اپنی گردن پر نہ لے اور میں نے یہ بھی کہا کہ یہ سارا سامان تو لے لے، میں نے تیرے لیے حلال کیا اور میں اس کی کسی سے شکایت بھی نہ کروں گا۔ میں نے اسے قسم بھی دی، مگر وہ اپنے ارادے پر اڑا رہا اور مجھے مارنے کے لیے اس نے اپنی کمر میں سختی سے ٹھونسا ہوا چھرا کھینچا تو وہ آسانی سے نہیں نکلا۔ مگر جب اس نے چھرا زور سے جھٹکا دے کر نکالا تو وہ ایک دم اس کی حلق پر آ لگا اور وہ خود بخود ذبح ہو گیا جیسا کہ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں۔‘‘
ہم نے اس کی مشکیں کھول دیں اور وہ شخص خچر اور اپنا سامان لے کر اپنے گھر گیا۔ پِھر ہم لوگ کشتی میں سوار ہوئے کہ: ’’مچھلی نکالیں تو وہ کود کر دریا میں جا چکی تھی۔ یقیناً یہ واقعہ نہایت حیرت انگیز ہے۔‘‘
(روض الریاحین فی حکایت الصالحین ص 330، مصنف امام یافعیؒ)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More