’’انوکھی بارات‘‘

0

لگ بھگ دو دہائیاں تو ہونے کو ہیں کہ سیلانی دیکھتا چلا جا رہا ہے، اس دیکھنے دکھانے میں اس نے اتنا کچھ دیکھ لیا ہے کہ اب اسے کم کم ہی حیرت ہوتی ہے، بلکہ سچی بات ہے حیرت تو محلے کی خالہ خیرن بن چکی ہے، جو سر پر برقعے کی ٹوپی رکھے یہاں وہاں گشت کرتی پھرتی ہے اور اتنی مصروف رہتی ہے کہ اس کی باری کبھی کبھار ہی آتی ہے، بلکہ اب تو شاذو نادر ہی آتی ہے، آتی بھی ہے تو وہ دروازے پر ہی حال چال پوچھ کر ’’اچھا میں چلتی ہوں‘‘ کہہ کر اگلی منزل کی طرف چل پڑتی ہے۔ یہ خالہ خیرن آج گلشن اقبال کراچی بلاک سات کی مسجد قبا میں سیلانی سے ملنے آئی ہوئی تھی اور ایسا آئی تھی کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
رات گیارہ بجے کا وقت تھا اور سیلانی حیرت سے شاہ جی کو تک رہا تھا، جس کے لبوں پر ہلکی سی مسکان بتا رہی تھی کہ وہ اپنے مہمان کی حیرت سے محظوظ ہو رہا ہے۔ بات ہی ایسی تھی، گھر میں پہلی خوشی ہو تو کیا کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا اور پھربندہ صاحب ثروت ہو، اللہ نے خوب دے رکھا ہو تو کون ہے جو دل ٹھنڈا نہیں کرتا۔ سیلانی کل ہی ایک دوست کے دفتر میں پیزا کھا رہا تھا اور سامنے بیٹھا اس کا دوست اپنی بیٹی کی شادی کا حال سناتے ہوئے بتا رہا تھا کہ اس نے کس دھوم دھام سے بیٹی کی شادی کی ہے۔
’’سیلانی بھائی! چار لاکھ کا تو صرف عروسی جوڑا تھا، باقی دنیا کی کون سی نعمت ہے، جو میں نے اسے جہیز میں نہیں دی، بس سمجھو کہ سینے سے اک دل نکال کر نہیں دیا، اولاد ہوتی ہی اتنی پیاری ہے۔‘‘ سیلانی کے کریدنے پر اس نے بتایا کہ اس کے اکاؤنٹ میں چوراسی لاکھ روپے تھے اور جب بیٹی کی رخصتی ہوئی تو اس نے چار لاکھ روپے بھائی کو دینے تھے۔ اس کے دوست کا کہنا تھا کہ گھر کی پہلی پہلی خوشی تھی اور معاملہ بھی بیٹی کا تھا، اس نے بھی ہاتھ نہیں روکا، جو جو بیٹی نے فرمائش کی، میں نے پوری کی۔
یہاں بھی گھر کی پہلی پہلی خوشی تھی، وہاں معاملہ بیٹی کا تھا تو یہاں بیٹے کا اور بیٹا بھی پہلوٹھی کا۔ ماؤں بہنوں کے دل ارمانوں سے ایسے لدے ہوتے ہیں، جیسے جوڑیا بازار میں اجناس سے گودام بھرے ہوں۔ ہفتہ ہفتہ بھر تو شادی کی تقریبات تھمنے کا نام نہیں لیتیں۔ حال ہی میں اسلام آباد کے گولڑہ شریف کے پیر زادوں کی شادیاں ہوئی ہیں۔ شادیاں تھیں یا کسی مہاراجہ کے راجوں کا بیاہ! ہفتہ ہفتہ بھر اسلام آباد کے جی سیکٹر میں وہ آتش بازی ہوتی رہی کہ رات اپنا سیاہ زینہ تک نہیں اتار سکی۔ وہ ڈھول تماشے ہوئے کہ لوگ اپنی خواب گاہوں کے دروازے بند کر کے اور بھاری رضائیوں میں منہ دے کر بھی نہ سو سکے۔ ان پیرزادوں کو بس سونے چاندی کی ترازو میں نہیں تولا گیا، باقی پیچھے کسر کچھ نہیں بچی تھی۔ گولڑہ شریف والوں نے رج کے دل کے ارمان ٹھنڈے کئے تھے اور کیوں نہ کرتے، وارثوں کی شادی تھی، رب نے دیا تھا تو لٹایا تھا۔ رہ گئی سادگی، قناعت پسندی کی باتیں تو یہ پیر پرست مریدوں کی سماعتوں کے لئے ہوتی ہیں، جن کے آگے پیچھے احادیث باندھ کر عمل کی تلقین کی جاتی ہے۔ سیلانی عبد اللہ شاہ مظہر کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ گولڑہ شریف والوں نے بھی یہ سب کچھ ارمان نکالنے کے لئے ہی کیا ہوگا تو کیا عبد اللہ شاہ مظہر کے دل میں ارمان نہ ہوں گے؟ ان کی اہلیہ کے دل میں ارمانوں کا گودام نہیں، چھوٹی سی دکان تو رہی ہوگی… شاہ جی نے وہ دکان ’’بھسم‘‘ نہیں کر دی؟
لمبا چوڑا سرخ و سپید عبد اللہ شاہ مظہر سید زادہ ہے، عالم دین ہے اور صرف عالم ہی نہیں، عالم باعمل بھی ہے، اسے جاننے والے جانتے ہیں کہ مسجد قباء کے منبر پر سفید ٹوپی پہنے کفر پر گرجنے والا شاہ جی پہاڑوں پر سیاہ عمامہ باندھے کفر پر برستا رہا ہے۔ عبد اللہ شاہ مظہر سے سیلانی کا تعلق سترہ اٹھارہ برسوں پر محیط ہے، لیکن اس سترہ اٹھارہ برسوں کے تعلق میں اٹھارہ ملاقاتیں بھی بمشکل ہوئی ہوں گی۔ البتہ رابطہ برابر رہتا ہے۔ شاہ جی کے پاؤں میں
چکر ہے، جو اسے کسی ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے نہیں دیتا۔ سیلانی کراچی آیا تو اتفاق سے شاہ جی بھی کراچی ہی میں موجود ملا۔ سیلانی نے رابطہ کیا، ارادہ یہی تھا کہ خوب گپ شپ ہوگی۔ شاہ جی جہاد کشمیر کے حوالے سے بھی خاصے باخبر ہیں اور متحرک رہے ہیں۔ ان کے اسی تحرک نے انہیں مشرف کے دور میں کئی ماہ تک کال کوٹھڑی میں قید بھی رکھا تھا۔ سیلانی اب رات دس بجے مسجد قباء سے متصل ان کے مہمان خانے میں ان کے سامنے بیٹھا انہیں فکر مندی سے دیکھ رہا تھا۔
’’شاہ جی خیریت تو ہے، دوبارہ سرکار نے مہمان خانے میں نہیں بلا لیا تھا؟‘‘
شاہ جی ہنس پڑے۔ ’’نہیں، نہیں بس کچھ طبیعت ٹھیک نہیں ہے، ڈاکٹروں کو دکھا رہا ہوں۔‘‘ سچی بات ہے سیلانی کو تو تشویش لاحق ہوگئی تھی، شاہ جی بتانے لگے انہیں تیزابیت کا مسئلہ ہے، ڈاکٹروں کو دکھا رہا ہوں، ایسے موقعوں پر سیلانی وہی کرتا ہے جو پوری قوم کرتی ہے۔ سیلانی نے ڈھیر سارے مفت مشورے دے ڈالے۔ مشوروں کے بعد سیلانی مقبوضہ کشمیر کا حال پوچھنے لگا۔
’’وادی میں کیا حال ہے، کوئی خیر خبر؟‘‘
’’سیلانی بھائی! وادی سے بڑی حوصلہ افزا خبریں آرہی ہیں، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مقامی آبادی جہاد میں لگ گئی ہے، کیا بچہ کیا بڑا، کیا مرد اور کیا عورت… سب جہاد میںکسی نہ کسی طرح حصہ ڈال رہے ہیں اور اب تو بھارت کا میڈیا بھی کہہ رہا ہے کہ کشمیر ہمارے ہاتھ میں رہنے والا نہیں۔‘‘ شاہ جی کی بات سن کر سیلانی کو بی جے پی کے لیڈر یشونت سنہا کا حال ہی میں کیا گیا اعتراف یاد آگیا۔ یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ ’’کشمیریوں کو ہم سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں رہی۔ وادی میں چند روز گزارنے پر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ کشمیریوں کو ہم پر اعتماد نہیں رہا۔ کشمیر بھارت کے ہاتھ میں گیلا صابن ہے۔ بھارت جتنے زور سے پکڑنے کی کوشش کررہا ہے، اتنا ہی ہاتھ سے نکل رہا ہے۔‘‘
کشمیر پر گفتگو کے بعد بات نکلتے ہوئے کابل پہنچی اور پھر گھومتے گھماتے ہوئے شاہ جی کے بڑے صاحبزادے کی ’’عمر قید‘‘ پر آپہنچی۔
’’یار شاہ جی! آپ نے پوچھا تک نہیں؟‘‘ بیٹے کی شادی کے ’’انکشاف‘‘ پر سیلانی نے گلہ کیا۔
’’سیلانی بھائی! وہ کہتے ہیں ناں، چٹ منگنی پٹ بیاہ، تو بات ایسے ہی تھی، بس منگنی شنگنی نہیں کی، ڈائریکٹ نکاح کیا اور لڑکی لے کر آگئے۔‘‘
’’یار! یہ کیا بات ہوئی، ہمیں بلایا تو ہوتا؟‘‘
’’بس سیلانی بھائی! مسنون طریقے سے شادی کی اور کوشش کی کہ کسی کو زحمت نہ ہو، میرا بیٹا اکیس برس کا ہو رہا ہے، میں نے ایک دن پوچھا کہ کیا خیال ہے شادی کے بارے میں، ابھی کرنی ہے یا ٹھہر جاؤں؟ اس نے کہا کل کر دیں، میں نے بھی کہا بسم اللہ، میرے بڑے بھائی یہیں شرف آباد میں رہتے ہیں، میں نے ان سے بات کی اور نکاح پڑھوا کر بیٹی لے آیا…‘‘
’’ایک ایک ایک منٹ، آپ بیٹے کی شادی کا بتا رہے ہیں یا گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے کا قصہ سنا رہے ہیں؟‘‘
’’سیلانی بھائی! ایسا ہی ہوا ہے، آپ یہاں کسی سے بھی پوچھ لیں، نکاح بہت آسان ہے، ہم نے اسے مشکل بنا رکھا ہے، آپ یقین کریں گے کہ بارات میں ہم تین چار لوگ تھے اور ان میں لڑکے کی ماں تک شامل نہیںتھی!‘‘
’’یہ کیسی بارات تھی؟‘‘ سیلانی نے حیرت سے کہا۔
’’بھئی اسلام میں بارات کا کوئی تصور نہیں ہے، یہ خواہ مخواہ کے چونچلے ہیں، میری اہلیہ ساتھ جانے پر ضد کر رہی تھی، تو میں نے اسے سمجھایا اور وہ سمجھ گئی، بیٹے نے غسل کیا، نیا جوڑا پہنا، عمامہ باندھا، بہترین خوشبو لگائی اور تیار ہو کر آگیا، میں نے اسے ساتھ لیا اور بھائی کے گھر پہنچ گیا، وہاں مسجد میں نکاح ہوا اور ہم دولہن لے کر گھر آگئے، پھر ولیمہ بھی یوں ہی ہوا کہ میں نے یہاں مسجد میں نماز کے بعد اعلان کر دیا کہ میرے بیٹے کا ولیمہ ہے، کوئی ضروری کام نہ ہو تو شرکت فرما لیں، میں مشکور رہوں گا۔ یہیں مسجد کے صحن میں دسترخوان بچھایا، بریانی اور زردہ پکوا رکھا تھا، مہمانوں کے لئے حاضر کر دیا۔‘‘
شاہ جی مسکراتے ہوئے پہلوٹھی کے بیٹے کی شادی کا احوال سنا رہا تھا اور سیلانی ہاتھ میں ادھ چھلا کینو لئے اس کا منہ تکے جا رہا تھا ’’یار شاہ جی! بیٹے کی شادی کے تو بہت ارمان ہوتے ہیں، ہماری بھابھی مان کیسے گئیں؟‘‘
’’سیلانی بھائی! میں نے اسے بٹھا کر سمجھایا کہ میں منبر پر بیٹھ کر سادگی کا درس دیتا ہوں، فضول خرچی، ریاکاری، دکھاوے پر لمبے لمبے خطبے دیتا ہوں اور اب میںخود ہی ایسا کرنے لگ جاؤں؟‘‘ شاہ جی نے بتایا کہ اس نے بھائی کے شدید اصرار کے باوجود جہیز میں کچھ لیا نہ لڑکے کے لئے بری بنوائی، شادی کے بعد بیٹے کے ہاتھ میں تین لاکھ روپے رکھ دیئے کہ جاؤ اپنی دولہن کو لے کر گھومو، پھرو، اب وہ ترکی جا رہے ہیں، پھر عمرہ کرتے ہوئے آئیں گے۔
’’آپ کی تو بڑی برادری ہے، بڑا تعلق واسطہ ہے، عزیز رشتہ دار ناراض تو ہوئے ہوں گے؟‘‘
’’نہ، بالکل بھی نہیں، بلکہ جن کی مالی حیثیت کمزور ہے، وہ بہت خوش ہیں کہ ہمارے لئے راستہ بن گیا، میرا ایک عزیز رکشہ ڈرائیور ہے، وہ میرے سینے لگ کر رو پڑا کہ شاہ جی آپ نے ہمارا کام آسان کر دیا ہے۔‘‘ شاہ جی مسکراتے ہوئے اپنے گھر کی پہلی خوشی کا احوال سنا رہے تھے اور ان کا چہرہ خالص خوشی سے چمک رہا تھا۔ انہوں نے لڑکی کے باپ کو زیر بار کیا، نہ خود پر فضول بوجھ لادا۔ واہیات رسموں میں پیسے اڑائے، نہ کسی بینکویٹ کے سامنے کاروں کی ایک کلو میٹر لمبی قطار لگوا کر اپنے تعلقات کا رعب جمایا۔ جس سادگی کا رسول اقدسؐ نے حکم دیا، جس طرح آپؐ کے صحابہ کرامؓ نکاح کیا کرتے تھے، عبد اللہ شاہ نے ویسا ہی کیا، پھر اس کا چہرہ خوشی سے کیوں نہ تمتماتا؟ وہ ایک امتحان میں کامیاب ہوا تھا، وہ بھی امتیازی نمبروں سے، یہاں تو حال یہ ہے کہ بیٹی کی رخصتی کے بعد باپ کئی کئی سال تک کمیٹیاں ڈال کر قرضے اتارتا رہتا ہے۔ جہیز نہ ہونے کے سبب اچھی اچھی لڑکیاں آئینوں کے سامنے کھڑی ہو کر بالوں میں چاندی کے تار گنتے ہوئی نفسیاتی عارضوں میں گھر جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آس پاس جو بے راہ روی کی غلاظت ابل رہی ہے، اس کا بڑا سبب ہی یہی ہے کہ ہم نے شادی کو مہنگا نہیں، مہنگا ترین کر دیا ہے۔ شاہ جی نے استطاعت رکھنے کے باوجود سادگی کی مثال قائم کر ڈالی۔ شاہ جی مسکراتے ہوئے اپنا سیل فون سامنے کردیا اور چار باراتیوں پر مشتمل بارات کا گروپ فوٹو دکھانے لگا۔ سیلانی حیرت اور خوشی سے فون ہاتھ میں لئے اس انوکھی بارات کی تصویر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More