میئر کراچی نے بینڈ باجے کے معدوم ہوتے پیشے پر آخری ضرب لگادی

0

امت رپورٹ
گارڈن میں تجاوزات کیخلاف آپریشن نے بینڈ باجے کے معدوم ہوتے پیشے کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ مرکزی مارکیٹ میں بینڈ گروپوں کے 50 سے زائد دفاتر مسمار ہونے کی وجہ سے درجنوں فنکار بیروزگار ہوگئے۔ شادیوں اور خوشی کی دیگر تقریبات میں شہنائی اور دیگر ساز بجانے والے افراد مزدوریاں کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جبکہ پشت در پشت اس پیشے سے وابستہ بعض فنکار اپنے خاندانی کام سے جڑے رہنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ بینڈ باجے والوں کا کہنا ہے کہ شادی بیاہ کے سیزن میں انہیں تھوڑا بہت کام مل ہی جاتا تھا۔ لیکن بلدیہ کراچی کی جانب سے بینڈ دفاتر توڑے جانے کے بعد ان کے بیٹھنے کا ٹھکانہ ہی ختم ہوگیا ہے اور انہوں نے موسیقی کے قیمتی آلات گھروں کی چھتوں اور اسٹورز میں ڈال دیئے ہیں۔
کراچی میں تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کے دوران کے ایم سی مارکیٹوں میں دکانوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بے رحمانہ آپریشن نے گارڈن کے علاقے میں بینڈ گروپوں کو بھی برباد کر دیا ہے۔ اس پیشے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں بینڈ باجے کے بغیر بارات کا تصور ہی نہیں تھا۔ اس دور میں بینڈ گروپوں کا بزنس عروج پر تھا۔ رامسوامی رنچھوڑ لائن میں بینڈ باجوں کے گروپوں کی بڑی تعداد میں دکانیں تھیں۔ صدر ایوب خان کے دور حکومت میں بینڈ باجے والوں کو چڑیا گھر کے اطراف میں کے ایم سی کی دکانیں دی گئی تھیِں۔ 1967ء میں گارڈن میں بینڈ باجے کی مرکزی مارکیٹ بن گئی۔ چڑیا گھر کے اطراف مزار سے مرکزی مارکیٹ تک آنے والے راستے پر 100 سے زائد بینڈ باجے والوں کی دکانیں اور دفاتر تھے، جہاں بکنگ کی جاتی تھی۔ بینڈ باجے والے اپنے بینڈ کی مختلف تقریبات کی تصاویر دکانوں کے باہر دیوار پر لگاتے تھے۔ جبکہ دکانوں کے باہر پرانے باجے، ڈھول اور تاشے لٹکے ہوتے تھے۔
کراچی کے شہری شادیوں اور دیگر تقریبات میں بینڈ گروپوں کو بلاکر خوشی کے لمحات کو یادگار بناتے تھے۔ انڈیا سے ہجرت کرکے آنے والے اس پیشے سے وابستہ لوگ اپنے شاگردوں کو ڈھول، تاشے، شہنائی اور دیگر ساز بجانے کی تربیت دیتے تھے۔ سازندوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گارڈن کی اس مارکیٹ سے تربیت لینے والے بینڈ ماسٹر مسلح افواج، پولیس اور دیگر اداروں میں بھرتی ہوکر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ سازندوں کیلئے یہ ایک بڑی تربیت گاہ بھی تھی۔ رات کو کسی پروگرام کی بکنگ کے بعد بینڈ باجے والے سہ پہر کو ہی بینڈ گروپوں کے دفاتر پہنچ جاتے تھے اور پریکٹس کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ اس دوران موسیقی کے آلات کو بھی سیٹ کیا جاتا تھا۔ اس دور میں بینڈ گروپوں کا معروف گیت’’ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘ ہوتا تھا۔ سازندے شادی بیاہ کے نئے گیتوں کی دھنیں بھی سیٹ کرتے تھے۔ بینڈ گروپوں کے ذمہ داران کا کہنا تھا کہ پھر رفتہ رفتہ شادیوں میں بینڈ باجے والوں کو بلوانے کا رواج کم ہوتا گیا اور بہت کم بکنگ آنے لگیں۔ پیسے والے لوگ پولیس یا ملٹری بینڈ والوں کو بلواتے تھے۔ لیکن اب بھی شادیوں کے سیزن میں تھوڑا بہت کام چل رہا تھا۔ شہر کے کونے کونے میں رہنے والوں کو معلوم تھا کہ بینڈ باجے والے گارڈن پر ملیںگے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جدید آلات آنے کے باوجود یہ بینڈ گروپ پرانے آلات سے روزی روٹی کما رہے تھے۔
ایک بینڈ ماسٹر وحید نے بتایا کہ بینڈ گروپ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک پائپ بینڈ ہوتا ہے، جس میں ڈھول تاشے کے ساتھ مشک نما تھیلے میں ہوا بھر کر بین سے آواز نکالی جاتی ہے۔ جبکہ دوسرا براسی بینڈ ہوتا ہے، جس میں ڈھول تاشے کے ساتھ پیتل کے مختلف بڑے چھوٹے باجے ہوتے ہیں اور یہ زوردار آواز سے بجتا ہے۔ جبکہ پائپ بینڈ کم آواز والا ہوتا ہے۔ گارڈن میں بینڈ باجے کی اس واحد مارکیٹ میں کئی برسوں سے کاروبار میں مندی کی صورت حال تھی۔ مہنگائی کے باعث لوگ بارات کے موقع پر ایک دو ڈھولچیوں کو بک کرکے لے جاتے ہیں۔ یہ ڈھولچی پنجاب کے مختلف شہروں سے کراچی آکر شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے مواقع پر ڈھول بجاتے ہیں۔ جبکہ رمضان میں سحری جگانے کا کام کرتے ہیں۔ چھوٹے بینڈ گروپ میں 10 سے 12 افراد ہوتے ہیں۔ جبکہ بڑے گروپ میں بینڈ ماسٹر کے انڈر 25 سے 30 افراد ہوتے ہیں، جن کی بکنگ 10 ہزار سے 50 ہزار روپے تک میں ہوتی ہے۔ کراچی میں گزشتہ برس نومبر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا سلسلہ صدر ایمپریس مارکیٹ سے شروع ہوا اور پھر کے ایم سی کی دیگر مارکیٹوں میں انہدامی کارروائیاں کی گئیں۔ اسی دوران گارڈن کی کے ایم سی مارکیٹ کی 420 دکانیں اور دفاتر مسمار کرنے کی خبریں سنائی دیں تو وہاں کاروبار کرنے والے بینڈ باجے والوں کی 50 سے زائد دکانوں کے مالکان بھی پریشان ہوئے کہ یہ پیشہ تو ویسے ہی دم توڑ رہا ہے اور میئر کراچی بینڈ والوں کو تباہ کرنے پر تل گئے ہیں۔کچھ دکانیں خالی کردی گئی تھیں، تاہم 5 جنوری کو کے ایم سی کی مشینری وہاں پہنچ گئی۔ دکانداروں کو صرف 3 گھنٹے کی مہلت دی تھی۔ سازندے ڈھول، باجے اور دیگر سامان لے کر فوری طور پر نکلے۔
’’امت‘‘ کو بینڈ ماسٹر نعمان نے بتایا کہ موسیقی کے آلات مسمار دکانوں کے سامنے روڈ پار مکینک، بیٹری والوں اور دیگر دکانداروں کے پاس رکھ دیئے ہیں۔ اب ملبے پر ڈھول اور دیگر آلات رکھ بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ آج کل شادی بیاہ کا سیزن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ قدیم شعبہ ڈوب چکا ہے۔ حالانکہ اس شعبے میں ان کے بڑوں نے زندگی گزاری ہے اور انہوں نے بھی بہت شوق سے اس فن کو اپنایا تھا۔ اب وہ اس فن کو زندہ رکھنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میئر کراچی نے متبادل جگہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ کب وفا ہوگا، اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ کب دکان کی جگہ ملے گی، کب دکان بنے گی، اس بارے میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملبے پر دکانوں کے بورڈ رکھ کر آلات موسیقی لئے بیٹھے ہیں تاکہ سیزن میں چار پیسے کما سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کاروبار سے وابستہ 500 کے قریب افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اب محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ محمد عمر نے بتایا کہ اس کو 600 روپے دیہاڑی ملتی تھی، وہ دکان میں صفائی ستھرائی اور آلات موسیقی کی صفائی اور دیگر کام کرتا تھا۔ اب دکا نہیں رہی تو اس کی نوکری بھی ختم ہوگئی ہے۔ بینڈ ماسٹر امجد کا کہنا تھا کہ بہت مشکل ہے کہ دکانوں کیلئے متبادل جگہ مل جائے، کیونکہ ابھی تو دیگر مارکیٹوں کے متاثرہ تاجروں کو بھی جگہ نہیں دی گئی ہے۔ بینڈ ماسٹر عارف کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئی ماہ کی محنت سے بیس پچیس گانوں کی دھنیں سیکھی تھیں۔ لیکن اب انہیں کوئی اور روزگار تلاش کرنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More